نرمل ندیم کی غزل

    وفا کی راہ میں دشواریاں بہت سی ہیں

    وفا کی راہ میں دشواریاں بہت سی ہیں مگر جنوں کی بھی تیاریاں بہت سی ہیں جلال اپنی محبت کا سب سے اونچا ہے بدن میں ایسے تو بیماریاں بہت سی ہیں ہمارے پاس فقط دل کا درد ہے لیکن تمہارے پاس تو عیاریاں بہت سی ہیں ہر ایک شخص کی فکریں جدا جدا ٹھہریں جہان عام میں خودداریاں بہت سی ہیں وفا ...

    مزید پڑھیے

    بدن کی موج میں انگڑائیاں الجھ جائیں

    بدن کی موج میں انگڑائیاں الجھ جائیں طلسم ایسا کہ بینائیاں الجھ جائیں جو تیرے پاؤں کی بکھری ہو خاک راہوں میں وہاں سے گزریں تو پرچھائیاں الجھ جائیں کھلی ہو زلف تو سر پر دوپٹا رکھ لینا نہ ایسا ہو کہیں پروائیاں الجھ جائیں زبان عشق جو کھولیں کہیں پہ سناٹے بڑے بڑوں کی بھی دانائیاں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کو خون جگر کی ہے طلب کہتے ہیں

    عشق کو خون جگر کی ہے طلب کہتے ہیں زخم کھانے کو وفاؤں کا ادب کہتے ہیں حسن کی دھوپ میں نکھرا ہوا پھولوں سا بدن دل کے لٹ جانے کا اس کو ہی سبب کہتے ہیں خاک ملتا ہے فلک آ کے مرے قدموں کی خاکساری کو بلندی کا لقب کہتے ہیں وہ بھی لہرا کے ہر اک درد سنا کرتی ہے قید کا واقعہ زنجیر سے جب کہتے ...

    مزید پڑھیے

    گلی میں حسن کی جو نقش پا چمکتا ہے

    گلی میں حسن کی جو نقش پا چمکتا ہے ہمارے عشق ہی کا مرتبہ چمکتا ہے اسی لئے تو مجھے نیند ہی نہیں آتی تمام رات کوئی خط کھلا چمکتا ہے ہزاروں شاہ جو جھکتے ہیں سامنے اس کے کسی فقیر کی جھولی میں کیا چمکتا ہے کئی دنوں سے یہ عالم ہے درد کا دل میں کسی مزار پہ جیسے دیا چمکتا ہے میں آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری یاد جب دل سے مرے لپٹی غزل کہہ دی

    تمہاری یاد جب دل سے مرے لپٹی غزل کہہ دی تڑپ کر جب کبھی آہ و فغاں اٹھی غزل کہہ دی شب تنہائی کا دیتی ہے جس کو نام یہ دنیا مرے سینے پہ جب آ کر کبھی بیٹھی غزل کہہ دی کہا جب گیت تو پھر گیت سا مضمون لے آیا کہیں جب بھی غزل میں نے غزل جیسی غزل کہہ دی بکھر کر چاندنی جب صحن میں ہنسنے لگی مجھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2