وفا کی راہ میں دشواریاں بہت سی ہیں

وفا کی راہ میں دشواریاں بہت سی ہیں
مگر جنوں کی بھی تیاریاں بہت سی ہیں


جلال اپنی محبت کا سب سے اونچا ہے
بدن میں ایسے تو بیماریاں بہت سی ہیں


ہمارے پاس فقط دل کا درد ہے لیکن
تمہارے پاس تو عیاریاں بہت سی ہیں


ہر ایک شخص کی فکریں جدا جدا ٹھہریں
جہان عام میں خودداریاں بہت سی ہیں


وفا کی ساری مثالیں گنا تو دوں لیکن
وطن میں اپنے بھی غداریاں بہت سی ہیں


دلوں میں پلتے ہوئے خواب جانتے ہی نہیں
تباہ کرنے کو بے کاریاں بہت سی ہیں


کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ یار سن تو سہی
ادا میں حسن کی مکاریاں بہت سی ہیں


سجی ہے بزم محبت یہ جان کس کے لئے
یہاں تو لوگوں میں بیزاریاں بہت سی ہیں


ندیمؔ کیوں تو تہ اضطراب ڈوب گیا
دلوں کے کھیل میں بھی پاریاں بہت سی ہیں