تمہاری یاد جب دل سے مرے لپٹی غزل کہہ دی

تمہاری یاد جب دل سے مرے لپٹی غزل کہہ دی
تڑپ کر جب کبھی آہ و فغاں اٹھی غزل کہہ دی


شب تنہائی کا دیتی ہے جس کو نام یہ دنیا
مرے سینے پہ جب آ کر کبھی بیٹھی غزل کہہ دی


کہا جب گیت تو پھر گیت سا مضمون لے آیا
کہیں جب بھی غزل میں نے غزل جیسی غزل کہہ دی


بکھر کر چاندنی جب صحن میں ہنسنے لگی مجھ پر
غموں پر خاک ڈالی اور میں نے بھی غزل کہہ دی


کبھی جب ڈگمگائی زندگی کی ناؤ طوفاں میں
ادائے موج پر میں نے محبت کی غزل کہہ دی


کئی آنسو مری پلکوں سے ٹوٹے بے زبانی میں
مگر میں نے کبھی جب بھی زباں کھولی غزل کہہ دی


ہزاروں رنگ دنیا کے سمیٹے شعر میں اپنے
کبھی جب گلشن دل سے اڑی تتلی غزل کہہ دی


مجھے بھی بے نشاں ہو کر ہی اس دنیا سے اٹھنا ہے
مگر میری انا نے آج پھر کوئی غزل کہہ دی


بہت خاموش تھا دشمن مگر بولا تو یہ بولا
ارے کیا بات ہے نرمل ندیمؔ اچھی غزل کہہ دی