عشق کو خون جگر کی ہے طلب کہتے ہیں

عشق کو خون جگر کی ہے طلب کہتے ہیں
زخم کھانے کو وفاؤں کا ادب کہتے ہیں


حسن کی دھوپ میں نکھرا ہوا پھولوں سا بدن
دل کے لٹ جانے کا اس کو ہی سبب کہتے ہیں


خاک ملتا ہے فلک آ کے مرے قدموں کی
خاکساری کو بلندی کا لقب کہتے ہیں


وہ بھی لہرا کے ہر اک درد سنا کرتی ہے
قید کا واقعہ زنجیر سے جب کہتے ہیں


تم یہ مانو کہ نہ مانو ہے تمہاری مرضی
عشق کو دان سہی جینے کو ڈھب کہتے ہیں


دل میں طوفاں جو چھپائے ہو چھپائے رکھو
سارا افسانہ لرزتے ہوئے لب کہتے ہیں


تم دوانے ہو یہ سچ ہے اسے تسلیم کرو
ہم نہیں کہتے فقط شہر میں سب کہتے ہیں


ان کو دیکھوں تو انہیں میری نظر لگ جائے
ایسا ہوتا ہے کہیں آپ غضب کہتے ہیں


دل جو روتا ہے اسے گاتے ہوئے نکلے ندیمؔ
لوگ اس درد محبت کو ادب کہتے ہیں