گلی میں حسن کی جو نقش پا چمکتا ہے
گلی میں حسن کی جو نقش پا چمکتا ہے
ہمارے عشق ہی کا مرتبہ چمکتا ہے
اسی لئے تو مجھے نیند ہی نہیں آتی
تمام رات کوئی خط کھلا چمکتا ہے
ہزاروں شاہ جو جھکتے ہیں سامنے اس کے
کسی فقیر کی جھولی میں کیا چمکتا ہے
کئی دنوں سے یہ عالم ہے درد کا دل میں
کسی مزار پہ جیسے دیا چمکتا ہے
میں آنکھ موند کے ہی اس کو یاد کرتا ہوں
مجھے پتہ ہے کہ میرا خدا چمکتا ہے
کبھی جو خواب میں آتی ہے اس کی پرچھائی
ہماری آنکھ میں اک آئنہ چمکتا ہے
اسی کا قافلہ پاتا ہے منزلوں کا پتہ
غبار راہ میں جو رہنما چمکتا ہے
تمام صدیوں نے سینچا ہے اپنے اشکوں سے
اسی کے نور سے دامن مرا چمکتا ہے
کشش یہ کیسی ہے لفظوں میں کس کا جلوہ ہے
ندیمؔ آپ کی غزلوں میں کیا چمکتا ہے