Nilofar Noor

نیلوفر نور

نیلوفر نور کی غزل

    لوٹ آئے وہ یا خدا پھر سے

    لوٹ آئے وہ یا خدا پھر سے میں نے مانگی ہے یہ دعا پھر سے ٹوٹ کر میں بکھر بھی سکتی ہوں دیکھ مجھ کو نہ آزما پھر سے ہر قدم پہ سنبھل کے چلتی ہوں ہو نہ جائے کوئی خطا پھر سے ریت مٹھی میں لے کے بیٹھی ہوں دیکھ بدلے گا زاویہ پھر سے بات اہل وفا کی نکلی تھی آپ کا ذکر آ گیا پھر سے اپنی چاہت پہ ...

    مزید پڑھیے

    پہلے اپنی ہار خود تسلیم کرنی ہے ہمیں

    پہلے اپنی ہار خود تسلیم کرنی ہے ہمیں بعد از اب آپ کی تعظیم کرنی ہے ہمیں آشنائے رنج و غم کرنے سے پہلے سوچ لیں کل یہی میراث پھر تقسیم کرنی ہے ہمیں عشق کی قسمت میں گر آہ و فغاں ہی ہے تو پھر یہ عبارت عشق کی ترمیم کرنی ہے ہمیں بعد میں کچھ عاشقی کے باب پر سوچیں گے ہم پہلے تو حاصل ابھی ...

    مزید پڑھیے

    پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے

    پریشاں ہو کے اپنی زندگی سے کنارا کر لیا تھا ہر کسی سے ہمیشہ در گزر کرتے رہیں کیا تمہاری بے رخی کو ہم خوشی سے دکھا کر دل ہمارا کیا ملے گا بتاؤ پوچھتی ہوں عاجزی سے مراسم اور گہرے ہو گئے ہیں سنا ہے آپ کے اک اجنبی سے کہاں ہے اور کیسا ہے ابھی وہ نگاہیں پوچھتی ہیں ہر کسی سے سمندر ...

    مزید پڑھیے

    اسے کہنا کہ جب جب آہٹوں پہ دل دھڑکتا ہے

    اسے کہنا کہ جب جب آہٹوں پہ دل دھڑکتا ہے اسے کہنا جہاں سارا اسی کو پیار کہتا ہے اسے کہنا زمانے سے بغاوت کر نہیں سکتی اسے کہنا مگر ترک وفا سے ڈر بھی لگتا ہے اسے کہنا دعاؤں میں خدا سے تم کو مانگا ہے اسے کہنا خدا دل کی دعائیں خوب سنتا ہے اسے کہنا کہ صدیاں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تم سے اسے ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں میں حساب ہوگا یہ طے کہاں تھا

    محبتوں میں حساب ہوگا یہ طے کہاں تھا ہر ایک لمحہ عذاب ہوگا یہ طے کہاں تھا یہ طے ہوا تھا وفا کی شمع جلا کرے گی اندھیرا ہم پہ عتاب ہوگا یہ طے کہاں تھا خزاں نہ آئے گی زندگی میں کبھی ہماری اداس بیلا گلاب ہوگا یہ طے کہاں تھا ہماری نظریں سوال بن کر اٹھا کریں گی سکوت لب پر جواب ہوگا یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2