Nazmi Sikandrabadi

نظمی سکندری آبادی

نظمی سکندری آبادی کی غزل

    وہ برہم ہوں تو ان کا ہر قدم محسوس ہوتا ہے

    وہ برہم ہوں تو ان کا ہر قدم محسوس ہوتا ہے جفا محسوس ہوتی ہے کرم محسوس ہوتا ہے بہت ویران ہے لیکن وہ جب تشریف لاتے ہیں یہی غربت کدہ رشک ارم محسوس ہوتا ہے ہماری جستجو پر بد گمانی ہے یہاں سب کو یہی کوچہ ہمیں کوئے صنم محسوس ہوتا ہے یہ مانا راہرو منزل سے کوسوں دور ہے اپنی مگر یہ فاصلہ ...

    مزید پڑھیے

    بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو

    بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو مری نظر میں مگر صرف میری ذات نہ ہو نظر میں دن کے اندھیرے رہیں تو شمع گرو حیات شمع فروزاں کی ایک رات نہ ہو یہی مزاج ہمیشہ سے ہے محبت کا میں ہار جاؤں یہ بازی کسی کو مات نہ ہو جہاں خلاف ہے لیکن یہ غیر ممکن ہے تباہیوں میں ہماری ہمارا ہات نہ ہو مزہ تو ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں خار لبوں پر گلہ ملے گا مجھے

    دلوں میں خار لبوں پر گلہ ملے گا مجھے خفا رہے گا زمانہ تو کیا ملے گا مجھے یہ کیا خبر تھی ملاقات ان سے ہوگی اگر نظر سے تا بہ نظر فاصلہ ملے گا مجھے طلسم تیرگئی شب کہیں تو ٹوٹے گا کوئی چراغ کہیں تو جلا ملے گا مجھے بہار باغ تمنا کوئی تو دیکھے گا کبھی تو دل میں کوئی جھانکتا ملے گا ...

    مزید پڑھیے

    اگر زباں سے نہ اشک رواں سے گزرے گا

    اگر زباں سے نہ اشک رواں سے گزرے گا تو پھر غبار طبیعت کہاں سے گزرے گا ہمارے نقش قدم راہ میں بنائے رکھو ابھی زمانہ اسی کہکشاں سے گزرے گا ابھی تو بجلیاں ٹوٹیں گی خرمن دل پر ابھی تو قافلہ شہر بتاں سے گزرے گا نصیب ہوں گی اسے سرفرازیاں کیا کیا جو سر جھکا کے ترے آستاں سے گزرے گا اسی ...

    مزید پڑھیے

    ابر چھائے گا کبھی دھوپ بکھر جائے گی

    ابر چھائے گا کبھی دھوپ بکھر جائے گی زندگی ہے تو بہرحال گزر جائے گی ہم جو ہر کام کے انجام پہ ڈالیں گے نظر روح غنچوں کے تبسم سے بھی ڈر جائے گی فکر کی شمع کرو گے جو شب غم روشن روشنی تہہ میں اندھیرے کے اتر جائے گی زندگی دہر میں سونے کی طرح ہے اپنی آتش غم میں تپے گی تو نکھر جائے گی ہم ...

    مزید پڑھیے

    درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے

    درد سے اگر رشتہ دوست کا نکل آئے غم میں مسکرانے کا راستہ نکل آئے سچ سے اک تعلق ہے ہر حسین کاوش کا ہر کہانی ممکن ہے واقعہ نکل آئے کوٹھیوں میں نکلے گا آدمی بھی مشکل سے جھونپڑوں میں ممکن ہے دیوتا نکل آئے وقت نے بدل ڈالا زندگی کی قدروں کو دوست کیا تھے کل اپنے آج کیا نکل آئے سوچنے ...

    مزید پڑھیے

    تری نظر کے فسوں کا اثر دکھائی دیا

    تری نظر کے فسوں کا اثر دکھائی دیا جدھر نہیں تھا زمانہ ادھر دکھائی دیا ہمارا ہم سے تعارف کرا دیا اس نے کبھی کہیں جو کوئی دیدہ ور دکھائی دیا ہمیں کسی نے کڑی دھوپ میں پناہ نہ دی کوئی شجر نہ سر رہ گزر دکھائی دیا جو لوگ بیٹھ گئے تھک کے راہ میں ان کو قریب آ کے بہت دور گھر دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    دولت درد کمانے کے لئے زندہ ہیں

    دولت درد کمانے کے لئے زندہ ہیں لطف جینے کا اٹھانے کے لئے زندہ ہیں فرق یہ کم ہے کہ تم اپنے لئے جیتے ہو اور ہم سارے زمانے کے لئے زندہ ہیں ٹوٹ کر بھی تو ہیں پیوستہ شجر سے اب تک ہم نئی زندگی پانے کے لئے زندہ ہیں وہ محافظ ہیں جنہیں تم نے کمانیں دی ہیں بے کماں صرف نشانے کے لئے زندہ ...

    مزید پڑھیے