ابر چھائے گا کبھی دھوپ بکھر جائے گی
ابر چھائے گا کبھی دھوپ بکھر جائے گی
زندگی ہے تو بہرحال گزر جائے گی
ہم جو ہر کام کے انجام پہ ڈالیں گے نظر
روح غنچوں کے تبسم سے بھی ڈر جائے گی
فکر کی شمع کرو گے جو شب غم روشن
روشنی تہہ میں اندھیرے کے اتر جائے گی
زندگی دہر میں سونے کی طرح ہے اپنی
آتش غم میں تپے گی تو نکھر جائے گی
ہم جدھر ہوں گے ادھر آنکھ اٹھے گی کس کی
وہ جدھر ہوں گے ادھر سب کی نظر جائے گی
تم محبت ہی نہ دو گے تو محبت کیسی
گھر میں وہ چیز ہی نکلے گی جو گھر جائے گی
اب کے گہرا ہے بہت رنگ بہاراں نظمیؔ
اب کے وحشت مری لے کر مرا سر جائے گی