تری نظر کے فسوں کا اثر دکھائی دیا

تری نظر کے فسوں کا اثر دکھائی دیا
جدھر نہیں تھا زمانہ ادھر دکھائی دیا


ہمارا ہم سے تعارف کرا دیا اس نے
کبھی کہیں جو کوئی دیدہ ور دکھائی دیا


ہمیں کسی نے کڑی دھوپ میں پناہ نہ دی
کوئی شجر نہ سر رہ گزر دکھائی دیا


جو لوگ بیٹھ گئے تھک کے راہ میں ان کو
قریب آ کے بہت دور گھر دکھائی دیا


بھری اڑان تو مجھ کو فضا ملی مسموم
زمیں پہ اترا تو بے بال و پر دکھائی دیا


رہ حیات میں جب تک وہ میرے ساتھ رہے
غم حیات بھی گرد سفر دکھائی دیا


کسی نے ہم سے بہت دن میں خیریت پوچھی
بہت دنوں میں کوئی راہ پر دکھائی دیا


وہ زد سے گردش دوراں کی بچ گئے نظمیؔ
کھلا ہوا جنہیں ساقی کا در دکھائی دیا