بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو
بلا سے ہو کہ علاج غم حیات نہ ہو
مری نظر میں مگر صرف میری ذات نہ ہو
نظر میں دن کے اندھیرے رہیں تو شمع گرو
حیات شمع فروزاں کی ایک رات نہ ہو
یہی مزاج ہمیشہ سے ہے محبت کا
میں ہار جاؤں یہ بازی کسی کو مات نہ ہو
جہاں خلاف ہے لیکن یہ غیر ممکن ہے
تباہیوں میں ہماری ہمارا ہات نہ ہو
مزہ تو جب ہے کوئی مجھ سے ملتفت ہو مگر
مری نظر میں کوئی وجہ التفات نہ ہو
ہماری بات کی تردید کیوں نہیں کرتے
جو چاہتے ہیں زمانہ ہمارے ساتھ نہ ہو
ہم اپنی سطح سے گر جائیں کس قدر نظمیؔ
ہمارے پاس اگر غم کی کائنات نہ ہو