سراسر ان کو گلستان آرزو کہیے

سراسر ان کو گلستان آرزو کہیے
رکیں تو رنگ سمجھئے چلیں تو بو کہیے


ہماری تشنگیٔ شوق کی ہے بات کچھ اور
یہ وہ نہیں جسے دوران گفتگو کہیے


مجھے شکست کا الزام بھی قبول مگر
مقابل آئیے برباد جستجو کہیے


سوال شوق کا اکثر جواب بنتی ہے
تری نظر کی خموشی کو گفتگو کہیے


ہماری تشنہ لبی کو نہ کر سکی سیراب
وہ گفتگو کی روانی کہ آب جو کہیے


ہر انقلاب کی لہر اپنے میکدے میں ہے
کسے شراب سمجھیے کسے لہو کہیے


چمن بدوش ہے ہر وادیٔ نظر نازشؔ
میری حیات کو کشمیر آرزو کہیے