نذیر تبسم کی غزل

    بیاض عمر میں جب حرف معتبر ہی نہیں

    بیاض عمر میں جب حرف معتبر ہی نہیں تو گویا ہم میں کسی بات کا ہنر ہی نہیں یہ دائروں کا سفر تھا تمام کیا ہوتا ہزار شکر کہ تو میرا ہم سفر ہی نہیں سکون نیم شبی کی تلاش لا حاصل پھر ایسے گھر میں کہ جس گھر کے بام و در ہی نہیں سوال یہ ہے کہ وہ میرا ہم نفس کیوں ہو مرے مزاج کی جس کو کوئی خبر ...

    مزید پڑھیے

    رہ گزر امکاں پر یوں تو کیا نہیں رکھتے

    رہ گزر امکاں پر یوں تو کیا نہیں رکھتے بس ترے بچھڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے جن سے کچھ تعلق ہو ان پہ جان دیتے ہیں ایسے ویسے لوگوں سے واسطہ نہیں رکھتے کتنی جان لیوا ہے ان کی بد نصیبی جو منزلیں تو رکھتے ہیں راستہ نہیں رکھتے اپنی سرد مہری پر دکھ مجھے بھی ہے لیکن آپ بھی تو غیروں سے ...

    مزید پڑھیے

    انا کے موڑ پر سوچا نہیں ہے

    انا کے موڑ پر سوچا نہیں ہے پلٹ کر پھر اسے دیکھا نہیں ہے ڈرو اس عہد کے آئینہ گر سے وہ گونگا ہے مگر اندھا نہیں ہے میں جس میں ڈوب جانا چاہتا ہوں وہ دریا ہے مگر گہرا نہیں ہے اب اس موضوع پر کیا بحث کرنا تمہارا وہ لب و لہجہ نہیں ہے میں خود لفظوں کی بازی کھیلتا ہوں مگر اس بات کا موقع ...

    مزید پڑھیے

    نہ وصل میں ہے سکوں اور نہ انتظار میں ہے

    نہ وصل میں ہے سکوں اور نہ انتظار میں ہے عجیب طرح کی افسردگی بہار میں ہے تعلقات کشیدہ ہوئے تو مجھ پہ کھلا کہ ذائقوں کا تغیر نگاہ یار میں ہے میں کرچیوں کی طرح ٹوٹتا ہی رہتا ہوں مرا وجود ابھی رنج بے خمار میں ہے جدائیوں کی اذیت بھی دھیان میں رکھنا میں مانتا ہوں یہ منظر ابھی غبار ...

    مزید پڑھیے

    زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

    زندگی یوں ہوئی بسر تنہا جیسے وادی میں اک شجر تنہا خوں طلب خواہشوں کے جنگل میں کیسے کاٹو گے یہ سفر تنہا چاندنی پتھروں پہ سوتی ہے چاند پھرتا ہے در بدر تنہا اپنی شاخوں کے ٹوٹ جانے پر پیڑ روتے ہیں رات بھر تنہا خوشبوؤں کی تلاش میں تتلی اڑ رہی ہے نگر نگر تنہا کون آئے گا اب نذیرؔ ...

    مزید پڑھیے

    کلی کلی میں نہاں ہچکچاہٹیں پہچان

    کلی کلی میں نہاں ہچکچاہٹیں پہچان تو شاخ گل پہ گل نو کی آہٹیں پہچان لہو کی آنکھ سے پڑھ میرے ضبط کی تحریر لبوں پہ لفظ نہ گن کپکپاہٹیں پہچان میں پنکھڑی کی طرح اپنے ہونٹ وا کر دوں تو تتلیوں کی طرح گنگناہٹیں پہچان محاذ کھول دیا ہے تو گہری نیند نہ سو ہوا کے بھیس میں ہیں سنسناہٹیں ...

    مزید پڑھیے

    یقیں خود کو دلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

    یقیں خود کو دلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے تمہیں یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے خزاں کی شدتوں سے خال و خد بجھ سے گئے ہیں سو پھر سے مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے یہاں بوئی گئی ہیں دکھ کی بارودی سرنگیں نئی فصلیں اگانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے یہ بستی مدتوں سرطان کی زد میں رہی ...

    مزید پڑھیے

    یہ سلیقہ بھی ہنر میں رکھنا

    یہ سلیقہ بھی ہنر میں رکھنا روشنی راہ گزر میں رکھنا یا تو خود میرے اثر میں رہنا یا مجھے اپنے اثر میں رکھنا مسئلہ غور طلب ہے اس میں کچھ اندیشے بھی نظر میں رکھنا کیا خبر وقت کہاں لے جائے جانے والوں کو خبر میں رکھنا دوستی جاہ طلب اور ہمیں ایک تنکا بھی نہ گھر میں رکھنا پر بریدہ ...

    مزید پڑھیے

    طوفاں کا وہم ہے نہ سمندر کا خوف ہے

    طوفاں کا وہم ہے نہ سمندر کا خوف ہے مجھ میں چھپا ہوا مرے اندر کا خوف ہے امید جس سے زندہ تھی وہ فصل جل گئی جو رہن رکھ چکا ہوں اسی گھر کا خوف ہے میرے بدن میں جس سے دراڑیں سی پڑ گئیں آنکھوں میں آج بھی اسی منظر کا خوف ہے آواز دائروں میں مقید سی ہو گئی ہر اک صدا کو گنبد بے در کا خوف ...

    مزید پڑھیے