رہ گزر امکاں پر یوں تو کیا نہیں رکھتے

رہ گزر امکاں پر یوں تو کیا نہیں رکھتے
بس ترے بچھڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے


جن سے کچھ تعلق ہو ان پہ جان دیتے ہیں
ایسے ویسے لوگوں سے واسطہ نہیں رکھتے


کتنی جان لیوا ہے ان کی بد نصیبی جو
منزلیں تو رکھتے ہیں راستہ نہیں رکھتے


اپنی سرد مہری پر دکھ مجھے بھی ہے لیکن
آپ بھی تو غیروں سے فاصلہ نہیں رکھتے


ان کی دسترس میں ہیں کائنات کے اسرار
وہ جو اپنی کٹیا میں اک دیا نہیں رکھتے


کیوں بدلتا رہتا ہے رنگ تیرے چہرے کا
ہم ترے مقابل تو آئنہ نہیں رکھتے