نہ وصل میں ہے سکوں اور نہ انتظار میں ہے

نہ وصل میں ہے سکوں اور نہ انتظار میں ہے
عجیب طرح کی افسردگی بہار میں ہے


تعلقات کشیدہ ہوئے تو مجھ پہ کھلا
کہ ذائقوں کا تغیر نگاہ یار میں ہے


میں کرچیوں کی طرح ٹوٹتا ہی رہتا ہوں
مرا وجود ابھی رنج بے خمار میں ہے


جدائیوں کی اذیت بھی دھیان میں رکھنا
میں مانتا ہوں یہ منظر ابھی غبار میں ہے


یہ زہر میری رگوں میں رواں ہے صدیوں سے
مرے وجود کی تکمیل انتشار میں ہے


نذیرؔ اپنی طبیعت پہ جبر کرتا ہوں
یہی تو ہے جو فقط میرے اختیار میں ہے