بیاض عمر میں جب حرف معتبر ہی نہیں

بیاض عمر میں جب حرف معتبر ہی نہیں
تو گویا ہم میں کسی بات کا ہنر ہی نہیں


یہ دائروں کا سفر تھا تمام کیا ہوتا
ہزار شکر کہ تو میرا ہم سفر ہی نہیں


سکون نیم شبی کی تلاش لا حاصل
پھر ایسے گھر میں کہ جس گھر کے بام و در ہی نہیں


سوال یہ ہے کہ وہ میرا ہم نفس کیوں ہو
مرے مزاج کی جس کو کوئی خبر ہی نہیں


کہ جیسے شیشے کے گنبد میں جی رہے ہیں ہم
یہاں پہ تازہ ہوا کا کہیں گزر ہی نہیں


نذیرؔ بستی کے لوگوں کو کیوں نہیں احساس
یہ سیل آب ہے اور صرف میرا گھر ہی نہیں