نوشاد اشہر کی غزل

    ہر قدم کھائے گا ٹھوکر نہ دکھائی دے گا

    ہر قدم کھائے گا ٹھوکر نہ دکھائی دے گا آنکھ ہو بند تو پتھر نہ دکھائی دے گا ڈھونڈھتا کیا ہے کوئی گھر نہ دکھائی دے گا شہر دیوار کا ہے در نہ دکھائی دے گا قافلہ شام کا گزرا ہے یہاں سے ہو کر گرد ہی گرد ہے منظر نہ دکھائی دے گا دیکھنا ہے تو اترنا ہی پڑے گا دل میں دور سے غم کا سمندر نہ ...

    مزید پڑھیے

    دور جو بہہ رہا تھا دریا سا

    دور جو بہہ رہا تھا دریا سا پاس آ کر لگا وہ صحرا سا حوصلے کی ہے بات آندھی میں جل رہا ہے چراغ ننھا سا اس کی تعبیر تلخ ہے کتنی خواب دیکھا جو ہم نے میٹھا سا اجنبیت کی دھند سے نکلوں کوئی آئے نظر جو اپنا سا تھا چمکنا مگر مری قسمت گر گیا ٹوٹ کر ستارہ سا جل رہے ہیں چراغ یادوں کے یہ جو ...

    مزید پڑھیے

    تم نے تو قصد سفر جانا تھا

    تم نے تو قصد سفر جانا تھا تم کو دنیا سے گزر جانا تھا یوں نہ خوشبو کو بکھر جانا تھا خیمۂ گل میں ٹھہر جانا تھا رنگ کی طرح تھے دیوار پہ ہم اک نہ اک روز اتر جانا تھا وہ تو اترے ہی نہیں پانی میں ڈوب کر جن کو ابھر جانا تھا اس لئے کھول دیا رخت سفر جس طرف سب تھے ادھر جانا تھا فکر تھی دل ...

    مزید پڑھیے

    جو کہا جس نے بضد ہے اسے منوانے میں

    جو کہا جس نے بضد ہے اسے منوانے میں بات کچھ اور الجھتی گئی سلجھانے میں کون سمجھے گا ادا کی ہے جو قیمت ہم نے مفت ہی خود کو گنوا بیٹھے اسے پانے میں کیا کہا آپ نے نقصان ہوا کچھ بھی نہیں آئنہ ٹوٹ گیا آپ کے شرمانے میں داستاں اتنی ہے آغاز سے انجام تلک حسن تھا پردہ نشیں عشق تھا ویرانے ...

    مزید پڑھیے

    سمندروں سے بہت دور آشنا ٹھہرے

    سمندروں سے بہت دور آشنا ٹھہرے غنیم میرے سفینے کے ناخدا ٹھہرے پیام حق کے امیں سارے بے نوا ٹھہرے خدا کرے کہ مری خامشی صدا ٹھہرے بجھا کے جاتی ہے کتنے چراغ الفت کے کبھی جو شہر میں نفرت کی یہ ہوا ٹھہرے چھپا کے جانا پڑا آئنوں کو منہ اپنا نگاہ خشت میں جب سنگ آئنہ ٹھہرے نگار خانۂ دل ...

    مزید پڑھیے

    کر گیا کیا کوئی انتقال آدمی

    کر گیا کیا کوئی انتقال آدمی لوگ کہتے ہیں تھا با کمال آدمی اپنی رفعت پہ خود ہی ہے دال آدمی شان یہ ہے کہ ہے بے مثال آدمی بیٹھ جائے گا تھک ہار کر ایک دن اور کچھ دن کرے گا دھمال آدمی سر پہ ہوتی نہیں جب خوشی کی ردا اوڑھ لیتا ہے کتنے ملال آدمی کرتے کرتے سوالات حل جسم کے بن گیا آج خود ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوں ترا یا تو ہے مرا کچھ پتہ نہیں

    میں ہوں ترا یا تو ہے مرا کچھ پتہ نہیں اتنا ہی بس مجھے ہے پتہ کچھ پتہ نہیں بہتر یہی ہے سب کی دعائیں سمیٹ لو کب آئے کام کس کی دعا کچھ پتہ نہیں پیاسی ہے میرے دل کی زمیں یہ خبر تو ہے برسی کہاں کہاں پہ گھٹا کچھ پتہ نہیں جلوؤں میں حسن یار کے گم ہو گئے تھے سب کب کاروان شوق لٹا کچھ پتہ ...

    مزید پڑھیے

    خود کو پانے کی فقط ہم جستجو کرتے رہے

    خود کو پانے کی فقط ہم جستجو کرتے رہے سنگ راہ معرفت کے سرخ رو کرتے رہے دیکھ کر ویرانیٔ مے خانہ و دیر و حرم کاسۂ غیرت کو ہم جام و سبو کرتے رہے روز کھلتے تھے امیدوں کے نئے غنچے مگر یاس کے موسم انہیں بے رنگ و بو کرتے رہے ڈوب ہی جائیں گے اک دن وقت کے سیلاب میں بے خبر حالات سے جو ہا و ہو ...

    مزید پڑھیے

    جانے کتنے خطروں میں اس نے خود کو ڈالا ہے

    جانے کتنے خطروں میں اس نے خود کو ڈالا ہے جس نے آئینہ سچ کا ہاتھ میں سنبھالا ہے زندگی تو ہے آساں صبر و شکر میں رہ کر خواہشات نے سب کو مشکلوں میں ڈالا ہے جانے کیا ہو مستقبل قوم کا خدا جانے اب تو صرف ماضی کا ہی بچا حوالہ ہے ہیں کہاں اجالوں کی آبرو کے رکھوالے ہر طرف اندھیروں کا آج ...

    مزید پڑھیے

    ہے یقیں جس دن چمن میں محترم ہو جائیں گے

    ہے یقیں جس دن چمن میں محترم ہو جائیں گے کتنی آنکھوں میں بمثل خار ہم ہو جائیں گے ترک کر دیں بولنا سچ ہم تمہارے خوف سے غم نہیں ہوگا اگر سر بھی قلم ہو جائیں گے تو بتا رشتہ ہے کیا تیرا وطن کی خاک سے ہے ہمیں نسبت اسی مٹی میں ضم ہو جائیں گے توڑنا اتنے ستم پھولوں پہ اب اچھا نہیں شاخ گل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2