جانے کتنے خطروں میں اس نے خود کو ڈالا ہے
جانے کتنے خطروں میں اس نے خود کو ڈالا ہے
جس نے آئینہ سچ کا ہاتھ میں سنبھالا ہے
زندگی تو ہے آساں صبر و شکر میں رہ کر
خواہشات نے سب کو مشکلوں میں ڈالا ہے
جانے کیا ہو مستقبل قوم کا خدا جانے
اب تو صرف ماضی کا ہی بچا حوالہ ہے
ہیں کہاں اجالوں کی آبرو کے رکھوالے
ہر طرف اندھیروں کا آج بول بالا ہے
حسن کے فسوں کارو تھام کر جگر بیٹھو
موجۂ تبسم میں درد ڈھلنے والا ہے
پانیوں پہ ہے پہرہ آج بھی یزیدوں کا
کیوں لگا زبانوں پر آج سب کے تالا ہے
پھیلتا صداؤں کا دائرہ بھی اب دیکھو
جھیل میں خموشی کی سنگ جب اچھالا ہے
نیند پھر کہاں آئی دیدۂ پریشاں میں
گھر سے جب قدم باہر خواب نے نکالا ہے
کیا اسے بجھائیں گے لوگ اپنی پھونکوں سے
جس چراغ کو اشہرؔ آندھیوں نے پالا ہے