میں ہوں ترا یا تو ہے مرا کچھ پتہ نہیں

میں ہوں ترا یا تو ہے مرا کچھ پتہ نہیں
اتنا ہی بس مجھے ہے پتہ کچھ پتہ نہیں


بہتر یہی ہے سب کی دعائیں سمیٹ لو
کب آئے کام کس کی دعا کچھ پتہ نہیں


پیاسی ہے میرے دل کی زمیں یہ خبر تو ہے
برسی کہاں کہاں پہ گھٹا کچھ پتہ نہیں


جلوؤں میں حسن یار کے گم ہو گئے تھے سب
کب کاروان شوق لٹا کچھ پتہ نہیں


اتنا تو مجھ کو یاد ہے میں اس کے ساتھ تھا
کب میں ہوا ہوں خود سے جدا کچھ پتہ نہیں


سب لوگ ڈھونڈنے میں لگے ہیں یہاں وہاں
رہتا ہے سب کے دل میں خدا کچھ پتہ نہیں


رہتا ہوں پھر میں اس کے تعاقب میں دیر تک
دیتا ہے کون مجھ کو صدا کچھ پتہ نہیں


شہرت کے آسماں پہ چمکتا تھا جو کبھی
سورج کہاں غروب ہوا کچھ پتہ نہیں


اشہرؔ اسیر میں تھا غم روزگار کا
کب ہو گیا بدن سے رہا کچھ پتہ نہیں