دور جو بہہ رہا تھا دریا سا
دور جو بہہ رہا تھا دریا سا
پاس آ کر لگا وہ صحرا سا
حوصلے کی ہے بات آندھی میں
جل رہا ہے چراغ ننھا سا
اس کی تعبیر تلخ ہے کتنی
خواب دیکھا جو ہم نے میٹھا سا
اجنبیت کی دھند سے نکلوں
کوئی آئے نظر جو اپنا سا
تھا چمکنا مگر مری قسمت
گر گیا ٹوٹ کر ستارہ سا
جل رہے ہیں چراغ یادوں کے
یہ جو کمرے میں ہے اجالا سا
تم کہ ٹھہرے ہوئے کنارے سے
میں کہ بہتا ہوا ہوں دریا سا
پھول سا لگ رہا تھا جو کل تک
چبھ رہا ہے وہ آج کانٹا سا
مسکراتے ہیں زخم دل اشہرؔ
ہے نظر میں کوئی مسیحا سا