Naseem Akhtar

نسیم اختر

نسیم اختر کی غزل

    اڑتی ہوئی خبر سنی سارے جہان میں

    اڑتی ہوئی خبر سنی سارے جہان میں دشمن مرا چھپا ہے مرے ہی مکان میں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مجھ کو خبر نہیں ہر بات ان کی ہوتی ہے میرے ہی دھیان میں ان کی نشانہ بازی کا اب دیکھیے کمال ان کا بھی تیر آ چکا میرے کمان میں ان کا گمان ہے کہ ہوں غافل خدا سے میں میں تو سدا رہی ہوں اسی کی امان ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں ہوتی ہیں لوگوں کی حاجتیں کیا کیا

    جہاں میں ہوتی ہیں لوگوں کی حاجتیں کیا کیا لکھی ہیں چہروں پہ ان کے عبارتیں کیا کیا نیا زمانہ ہے ہر موڑ سے سنبھل کے نکل کھڑی ہیں راہ میں عریاں ضرورتیں کیا کیا بڑے خلوص سے ہم اجنبی سے ملتے ہیں ضرورتوں کی ضرورت ہیں چاہتیں کیا کیا تمام رشتے دکھاوے کے رشتے لگتے ہیں دلوں میں گھول رہی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے عہد زوال سے نکلی

    اپنے عہد زوال سے نکلی ایک مچھلی کہ جال سے نکلی گم ہوئی مستقل اندھیروں میں کوئی صورت خیال سے نکلی آہ رونق جو تھی مرے گھر کی عرصۂ ماہ و سال سے نکلی پہلے اک آگ کا سمندر تھا برق میرے جلال سے نکلی ڈھل گئی عمر تو ہوا معلوم آنچ سی خد و خال سے نکلی فکر تم بھی کرو نسیمؔ اپنی تازگی عرض ...

    مزید پڑھیے

    اتنی مشکل تو نہ تھی میری کتاب زندگی

    اتنی مشکل تو نہ تھی میری کتاب زندگی کچھ الجھ کے رہ گیا ہے اب نصاب زندگی زندگی لیتی ہے مجھ سے ایک اک پل کا حساب تھک گئی ہوں دیتے دیتے میں حساب زندگی مجھ کو پیش آتی رہی ہیں مشکلیں ہی مشکلیں جان لیوا ہے الٰہی یہ عذاب زندگی مجھ سے گر کوئی بھی پوچھے زندگی کیا چیز ہے میں کہوں گی ایک ...

    مزید پڑھیے

    لکھی تھی جو کہانی وہ کہانی یاد آتی ہے

    لکھی تھی جو کہانی وہ کہانی یاد آتی ہے تمہارے پیار کی مجھ کو نشانی یاد آتی ہے بہاروں کا سماں سا ہے بھرے گلشن میں دیکھو تو گلابوں کی وہ رت اکثر سہانی یاد آتی ہے کہی ہے جو غزل میں نے اسی کے نام کر دی ہے ہمیں اب اس کے لہجے کی روانی یاد آتی ہے کہاں سے لاؤں خون دل تمہیں اب یاد کرنے ...

    مزید پڑھیے