اتنی مشکل تو نہ تھی میری کتاب زندگی

اتنی مشکل تو نہ تھی میری کتاب زندگی
کچھ الجھ کے رہ گیا ہے اب نصاب زندگی


زندگی لیتی ہے مجھ سے ایک اک پل کا حساب
تھک گئی ہوں دیتے دیتے میں حساب زندگی


مجھ کو پیش آتی رہی ہیں مشکلیں ہی مشکلیں
جان لیوا ہے الٰہی یہ عذاب زندگی


مجھ سے گر کوئی بھی پوچھے زندگی کیا چیز ہے
میں کہوں گی ایک دیوانے کا خواب زندگی


دل نے سرگوشی سی کی ہے سن مرے ہمدم ذرا
چھیڑ کے تو دیکھ کیسا ہے رباب زندگی


تجھ سے میں کیسے کہوں یہ بات میرے ہم نوا
یاد آتا ہے مجھے اکثر شباب‌ زندگی


کٹ گئی جیسے کٹی بس تو خدا کو یاد کر
اے نسیمؔ اب ڈھل رہا ہے آفتاب زندگی