اپنے عہد زوال سے نکلی
اپنے عہد زوال سے نکلی
ایک مچھلی کہ جال سے نکلی
گم ہوئی مستقل اندھیروں میں
کوئی صورت خیال سے نکلی
آہ رونق جو تھی مرے گھر کی
عرصۂ ماہ و سال سے نکلی
پہلے اک آگ کا سمندر تھا
برق میرے جلال سے نکلی
ڈھل گئی عمر تو ہوا معلوم
آنچ سی خد و خال سے نکلی
فکر تم بھی کرو نسیمؔ اپنی
تازگی عرض حال سے نکلی