جہاں میں ہوتی ہیں لوگوں کی حاجتیں کیا کیا
جہاں میں ہوتی ہیں لوگوں کی حاجتیں کیا کیا
لکھی ہیں چہروں پہ ان کے عبارتیں کیا کیا
نیا زمانہ ہے ہر موڑ سے سنبھل کے نکل
کھڑی ہیں راہ میں عریاں ضرورتیں کیا کیا
بڑے خلوص سے ہم اجنبی سے ملتے ہیں
ضرورتوں کی ضرورت ہیں چاہتیں کیا کیا
تمام رشتے دکھاوے کے رشتے لگتے ہیں
دلوں میں گھول رہی ہیں حقارتیں کیا کیا
طویل عمر گزاری ہے اور تنہا ہوں
ملی ہیں اپنوں کی مجھ کو محبتیں کیا کیا
فنا کی گرد سے بچنا نسیمؔ مشکل ہے
بگڑتی دیکھی ہیں اجلی شباہتیں کیا کیا