لکھی تھی جو کہانی وہ کہانی یاد آتی ہے

لکھی تھی جو کہانی وہ کہانی یاد آتی ہے
تمہارے پیار کی مجھ کو نشانی یاد آتی ہے


بہاروں کا سماں سا ہے بھرے گلشن میں دیکھو تو
گلابوں کی وہ رت اکثر سہانی یاد آتی ہے


کہی ہے جو غزل میں نے اسی کے نام کر دی ہے
ہمیں اب اس کے لہجے کی روانی یاد آتی ہے


کہاں سے لاؤں خون دل تمہیں اب یاد کرنے کو
میں جب سوچوں تو اس دل میں پرانی یاد آتی ہے


نسیمؔ اخترؔ کہاں ہیں اب وہ جذبوں سے بھری راتیں
ہمیں اب اپنے اشکوں کی روانی یاد آتی ہے