نجمہ محمود کی نظم

    ریگستان میں جھیل

    سنا کرتے تھے اب تک ریگزاروں میں کہیں بھی دور تک پانی نہیں ملتا مگر اک بار جب ہم ریت کے جلتے ہوئے ذروں پہ ننگے پاؤں چل کر لہو برساتے سورج سے نگاہیں چار کرتے پاؤں میں چھالے سجائے پانی کے چند ایک قطرے ڈھونڈتے قدم آگے بڑھائے جا رہے تھے لہو کی تیز بڑھتی گردشیں مدھم سے مدھم تر ہی ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    برف یوں ہی گرے

    برف یوں ہی گرے چوٹیوں کو پہاڑوں کی ڈھکتی رہے کوہساروں میں چاندی پگھلتی رہے آگ جلتی رہے مینہ برستا رہے آرزؤں کے بے چین سے قافلے یوں ہی آہستگی سے سرکتے رہیں ہم یوں ہی خواب کی وادیوں سے گزرتے رہیں ہم یوں ہی ہر طرف وادیوں کوہساروں میں تحلیل ہوتے رہیں درختوں کی شاخوں پہ اس طرح ہی صاف ...

    مزید پڑھیے

    میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

    میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں دھیمی دھیمی پھوار گرتی ہے مجھ میں دریا ہیں موجزن ہر سو لہریں اٹھتی ہیں ڈوب جاتی ہیں میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

    مزید پڑھیے

    گہرائیوں کا خوف

    بہت آساں نظر آیا ہمیں اس روز اپنا پانیوں پر تیرتے رہنا کسی نے جب کہا گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھو کہ اندر کیا ہے تو ہم ڈر کر سمندر کے کنارے کی طرف لپکے

    مزید پڑھیے

    ایک قصۂ کہنہ کی تجدید

    نگاہ فسوں ساز دل میں اتر کر زمانہ سے بیگانہ سا کر گئی لہو قطرہ قطرہ نگاہوں سے زنجیر بن کر ٹپکتا رہے گا یہ طوفانی موجیں یوں ہی کب تلک مجھ سے آ آ کے ٹکرائیں گی آگ کب تک جلے گی دھواں کب تلک یوں ہی اٹھتا رہے گا یہ کیسے ہوا سارے رشتے فقط ایک ہی ذات میں آ سمائے ہمیں ناز ہے کہ ہم نے وہ ...

    مزید پڑھیے

    فطرت کی سحر طرازیاں

    فطرت کا حسن سحر خیز اس کے راز بے کراں بے پناہ حسین پھول زندہ چشمے بہتے دریا سبزہ زار کوہسار جنگل اور صحرا وادیاں گھاٹیاں اتھاہ سمندر اور ان میں آباد دنیائیں پر اسرار حیرت خیز سحر انگیز ایک پوری کائنات گرجتے بادل بجلی کی لہریں شفق افق زمین سے اگتا آفتاب چاند کا جادو بارش کی مسحور ...

    مزید پڑھیے

    رہائی کی بے سود خواہش

    میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر ہوا چیختی ہے بڑا شور ہے سیٹیاں بج رہی ہیں چمک دھوپ کی بند کھڑکی کے شیشے سے اندر چلی آ رہی ہے ہوائیں فضا میں بہے جا رہی ہیں مرے ہر طرف شور ہی شور ہے مگر ایک بے نام بستی مہیب اور پر شور سناٹوں سے جاں بہ لب ہے کھڑکیاں کھول دو یہ اونچی بہت اونچی دیواریں ڈھا ...

    مزید پڑھیے