رہائی کی بے سود خواہش

میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر ہوا چیختی ہے
بڑا شور ہے
سیٹیاں بج رہی ہیں
چمک دھوپ کی بند کھڑکی کے شیشے سے اندر چلی آ رہی ہے
ہوائیں فضا میں بہے جا رہی ہیں
مرے ہر طرف شور ہی شور ہے
مگر ایک بے نام بستی
مہیب اور پر شور سناٹوں سے جاں بہ لب ہے
کھڑکیاں کھول دو
یہ اونچی بہت اونچی دیواریں ڈھا دو
مجھے پنکھ دے کر ہوا میں اڑا دو
مجھے وادیوں کوہساروں چمن زاروں کی خوشبوؤں میں سما جانے دو
ہوا بن کے ہر سو بکھر جانے دو
مجھے اس سمندر کی گہرائیوں میں اتر جانے دو
میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر ہوا چیختی ہے
بڑا شور ہے
سیٹیاں بج رہی ہیں
چمک دھوپ کی بند کھڑکی کے شیشے سے اندر چلی آ رہی ہے
ہوائیں فضا میں بہے جا رہی ہیں