نجمہ محمود کے تمام مواد

7 نظم (Nazm)

    ریگستان میں جھیل

    سنا کرتے تھے اب تک ریگزاروں میں کہیں بھی دور تک پانی نہیں ملتا مگر اک بار جب ہم ریت کے جلتے ہوئے ذروں پہ ننگے پاؤں چل کر لہو برساتے سورج سے نگاہیں چار کرتے پاؤں میں چھالے سجائے پانی کے چند ایک قطرے ڈھونڈتے قدم آگے بڑھائے جا رہے تھے لہو کی تیز بڑھتی گردشیں مدھم سے مدھم تر ہی ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    برف یوں ہی گرے

    برف یوں ہی گرے چوٹیوں کو پہاڑوں کی ڈھکتی رہے کوہساروں میں چاندی پگھلتی رہے آگ جلتی رہے مینہ برستا رہے آرزؤں کے بے چین سے قافلے یوں ہی آہستگی سے سرکتے رہیں ہم یوں ہی خواب کی وادیوں سے گزرتے رہیں ہم یوں ہی ہر طرف وادیوں کوہساروں میں تحلیل ہوتے رہیں درختوں کی شاخوں پہ اس طرح ہی صاف ...

    مزید پڑھیے

    میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

    میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں دھیمی دھیمی پھوار گرتی ہے مجھ میں دریا ہیں موجزن ہر سو لہریں اٹھتی ہیں ڈوب جاتی ہیں میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

    مزید پڑھیے

    گہرائیوں کا خوف

    بہت آساں نظر آیا ہمیں اس روز اپنا پانیوں پر تیرتے رہنا کسی نے جب کہا گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھو کہ اندر کیا ہے تو ہم ڈر کر سمندر کے کنارے کی طرف لپکے

    مزید پڑھیے

    ایک قصۂ کہنہ کی تجدید

    نگاہ فسوں ساز دل میں اتر کر زمانہ سے بیگانہ سا کر گئی لہو قطرہ قطرہ نگاہوں سے زنجیر بن کر ٹپکتا رہے گا یہ طوفانی موجیں یوں ہی کب تلک مجھ سے آ آ کے ٹکرائیں گی آگ کب تک جلے گی دھواں کب تلک یوں ہی اٹھتا رہے گا یہ کیسے ہوا سارے رشتے فقط ایک ہی ذات میں آ سمائے ہمیں ناز ہے کہ ہم نے وہ ...

    مزید پڑھیے

تمام