Najeeb Ahmad

نجیب احمد

نجیب احمد کی غزل

    ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا

    ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا لیکن کہا ہوا کا بھی پورا نہیں ہوا تم ایک گرد باد تھے چکرا کے رہ گئے ہم سے بھی پار ذات کا صحرا نہیں ہوا خوشبو کہیں تو پھول ہوا لے اڑی کہیں یوں منتشر کسی کا قبیلہ نہیں ہوا سو وسوسوں کی گرد برستی رہی مگر دل ایسا آئنہ تھا کہ میلا نہیں ہوا پتھر تھے ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا

    زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا ہم کہ دریا ہیں سمندر کی غذا ہونا ہی تھا اور کب تک بے ثمر رکھتی خزاں پیڑوں کے ہاتھ رت بدل جانا تھی یہ جنگل ہرا ہونا ہی تھا روکنے سے کب ہوا کے نرم جھونکے رک سکے بند دروازوں کو اک دن نیم وا ہونا ہی تھا دھول کب تک جھونکے اک دوسرے کی آنکھ میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    یقیں نے مجھ کو اسیر‌ گماں نہ رہنے دیا

    یقیں نے مجھ کو اسیر‌ گماں نہ رہنے دیا کہ اس نے ربط کوئی درمیاں نہ رہنے دیا مری نظر ہی سمندر کی آخری حد تھی مری تھکن نے مجھے پرفشاں نہ رہنے دیا کسی نے کشتی اتاری تو تھی سمندر میں مگر ہوا نے کوئی بادباں نہ رہنے دیا کوئی تو برف بکف دشت کی طرف آیا کسی نے بحر میں پانی رواں نہ رہنے ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے

    ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے سمندر اور گہرا ہو نہ جائے یہ دھن یہ موج لے ڈوبے نہ مجھ کو بگولا غرق صحرا ہو نہ جائے ہوائیں سر برہنہ پھر رہی ہیں قبائے گل تماشا ہو نہ جائے ابھی کچھ تیر ترکش میں بھی ہوں گے پرانا زخم اچھا ہو نہ جائے قیامت کی گھڑی ہے آج سورج سوا نیزے سے اونچا ہو نہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ہمدم ترے ہم راز ہوا کرتے تھے

    تیرے ہمدم ترے ہم راز ہوا کرتے تھے ہم ترے ساتھ ترا ذکر کیا کرتے تھے ڈھونڈ لیتے تھے لکیروں میں محبت کی لکیر ان کہی بات پہ سو جھگڑے کیا کرتے تھے اک ترے لمس کی خوشبو کو پکڑنے کے لئے تتلیاں ہاتھ سے ہم چھوڑ دیا کرتے تھے وصل کی دھوپ بڑی سرد ہوا کرتی تھی ہم ترے ہجر کی چھاؤں میں جلا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا

    نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا کہ ایک روح تھا میں جسم تھا نشاں میرا ہر ایک سانس نیا سال بن کے آتا ہے قدم قدم ابھی باقی ہے امتحاں میرا مری زمیں مجھے آغوش میں سمیٹ بھی لے نہ آسماں کا رہوں میں نہ آسماں میرا چلا گیا ترے ہم راہ خوف رسوائی کہ تو ہی راز تھا اور تو ہی راز داں ...

    مزید پڑھیے

    کہ خود انسان ڈھلتا جا رہا ہے

    کہ خود انسان ڈھلتا جا رہا ہے کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے نہ کچھ کہتا نہ کچھ سنتا ہے کوئی فقط پہلو بدلتا جا رہا ہے ادھر ملتی نہیں سانسوں سے سانسیں زمانہ ہے کہ چلتا جا رہا ہے نہیں اس کو کھلونوں کی ضرورت وہ اب خود ہی بہلتا جا رہا ہے مکانوں میں نئے روزن ...

    مزید پڑھیے

    آسماں سورج ستارے بحر و بر کس کے لیے

    آسماں سورج ستارے بحر و بر کس کے لیے یہ سفر کس کے لئے رخت سفر کس کے لئے وہ ہرے دن وہ بھرے موسم تو کب کے جا چکے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں اب شجر کس کے لئے دن نکلتے ہی نکل آئے تھے کس کی کھوج میں شام ڈھلتے ہی چلے آئے ہیں گھر کس کے لیے تو کسی کا منتظر کب تھا مگر یہ تو بتا عمر بھر دل کا کھلا ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں کیسے بسر ہجر کی راتیں کی ہیں

    کیا کہیں کیسے بسر ہجر کی راتیں کی ہیں عمر بھر چاند سے اک شخص کی باتیں کی ہیں کب اذانوں سے نہ معمور تھا کعبہ دل کا کب فقیروں نے قضا عشق صلوٰتیں کی ہیں تیری خوشبو سے کوئی خط نہ ہوا پر لکھا خشک کس دھوپ نے پھولوں کی دواتیں کی ہیں ہار تو کھیل کا حصہ تھی مگر فرق یہ ہے مات سے پہلے ہی تہہ ...

    مزید پڑھیے

    سر نیاز وہ سودا نظر نہیں آتا

    سر نیاز وہ سودا نظر نہیں آتا وہ جیسا پہلے تھا ویسا نظر نہیں آتا وہ رات تھی تو بسر ہو گئی بہر صورت اگر یہ دن ہے تو کٹتا نظر نہیں آتا یہ کس کی اوٹ میں جلتے رہے رتوں کے چراغ کسی گلی میں اجالا نظر نہیں آتا رکوں تو حجلۂ منزل پکارتا ہے مجھے قدم اٹھاؤں تو رستہ نظر نہیں آتا ہوا میں روئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4