Najeeb Ahmad

نجیب احمد

نجیب احمد کی نظم

    خیال رکھنا

    میں جا چکوں تو خیال رکھنا رفیق میرے، زمین کی ان دراز پلکوں سے اشک بن کر جڑے ہوئے ہیں خیال رکھنا کہ سارے موسم بس ایک دکھ کے پیامبر ہیں جو میرا دکھ ہے یہ میرا دکھ ہے کہ میں نے اس دکھ کی پرورش ہیں لہو کا لقمہ، بدن کا ایندھن کیا فراہم یہ دکھ مرا ہے، مرا رہے گا کہ آسمانوں کی سمت میرے سوا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کچھ کام باقی ہیں

    ابھی ٹھہرو ابھی کچھ کام باقی ہیں ذرا یہ کام نمٹا لیں تو چلتے ہیں ابھی تو نا مکمل نظم کا اک آخری مصرعہ کتاب ہجر میں تحریر کرنا ہے خس و خاشاک غم اسلاف میں تقسیم ہو جائیں تو سر سے بوجھ اترے قرض کا جامہ پہن کر اک نئے رستے پہ جانا کب مناسب ہے ابھی ٹھہرو ابھی ہم کو جزیرے میں ہوا کے سبز ...

    مزید پڑھیے

    خواب گاہ

    غرض کی میلی دراز چادر لپیٹ کر وہ منافقت کے سیاہ بستر پہ سو رہی تھی مری برہنہ نگاہ میں رت جگوں کی سرخی جمی ہوئی ہے پہاڑ سی رات ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی

    مزید پڑھیے

    دیئے آنکھوں کی صورت بجھ چکے ہیں

    وصل کے لمحوں کی گنتی کرنے والے ہاتھ حدت سے تہی ہیں موج میں آئے ہوئے دریا میں کشتی کون ڈالے مانجھیوں کے گیت لہروں کی طرح ساحل کی بھیگی ریت پر بکھرے ہوئے ہیں اب کسی بڑھیا کی گٹھری کوئی اہل دل اٹھا کر بستیوں کا رخ نہیں کرتا کسی ہمسائے سے احوال دل معلوم کرنا کار بے اجرت ہوا ہے نفسی ...

    مزید پڑھیے