کیا کہیں کیسے بسر ہجر کی راتیں کی ہیں
کیا کہیں کیسے بسر ہجر کی راتیں کی ہیں
عمر بھر چاند سے اک شخص کی باتیں کی ہیں
کب اذانوں سے نہ معمور تھا کعبہ دل کا
کب فقیروں نے قضا عشق صلوٰتیں کی ہیں
تیری خوشبو سے کوئی خط نہ ہوا پر لکھا
خشک کس دھوپ نے پھولوں کی دواتیں کی ہیں
ہار تو کھیل کا حصہ تھی مگر فرق یہ ہے
مات سے پہلے ہی تہہ ہم نے بساطیں کی ہیں
لوٹ جاتے ہیں یہ ٹکرا کے سر ساحل سے
مضطرب ذہنوں نے کب پار فراتیں کی ہیں
ڈولی اٹھی نہ تہی چشم ستاروں کی نجیبؔ
صبح نمناک نے رخصت یہ براتیں کی ہیں