Najeeb Ahmad

نجیب احمد

نجیب احمد کی غزل

    کرن تو گھر کے اندر آ گئی تھی

    کرن تو گھر کے اندر آ گئی تھی سنہری دھوپ کیوں کجلا گئی تھی کچھ ایسی بے حسی سے پیش آیا کہ میری بے کسی شرما گئی تھی چھناکا تو مرے اندر ہوا تھا تری آواز کیوں بھرا گئی تھی وہی رشتے وہی ناطے وہی غم بدن سے روح تک اکتا گئی تھی جنم پا کر جنم پایا نہ میں نے مجھے لفظوں کی ناگن کھا گئی ...

    مزید پڑھیے

    دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں

    دل کو ہر گام پہ دھڑکے سے لگے رہتے ہیں تجھ کو کھو دینے کے خدشے سے لگے رہتے ہیں سر تو کٹ جاتے ہیں جسموں سے مگر صدیوں تک خاک پر خون کے دھبے سے لگے رہتے ہیں جھاڑ پونچھ ایک مرے کام نہیں آ پائی در و دیوار پہ جالے سے لگے رہتے ہیں پیاس اڑتی ہے لب ہجر پہ مانند غبار وصل کی جھیل پہ پہرے سے ...

    مزید پڑھیے

    موت سے زیست کی تکمیل نہیں ہو سکتی

    موت سے زیست کی تکمیل نہیں ہو سکتی روشنی خاک میں تحلیل نہیں ہو سکتی موم ہو جاؤں کہ پتھر سے خدا ہو جاؤں کسی صورت مری تکمیل نہیں ہو سکتی کس لیے سانس کی زنجیر سے باندھا ہے مجھے اور کچھ صورت تذلیل نہیں ہو سکتی کس لیے زندہ ہوں میں کس کے لیے زندہ ہوں جرم ایسا ہے کہ تاویل نہیں ہو ...

    مزید پڑھیے

    آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا

    آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا مطمئن ایسے کہ ہر گام یہی سوچتے ہیں اس سفر میں کوئی صحرا نہ سراب آئے گا یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی عمر جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا کب مری آنکھوں میں خوں رنگ کرن اترے گی رات کی شاخ پہ کب عکس گلاب آئے گا زرد ...

    مزید پڑھیے

    پیرہن اڑ جائے گا رنگ قبا رہ جائے گا

    پیرہن اڑ جائے گا رنگ قبا رہ جائے گا پھول کے تن پر فقط عکس ہوا رہ جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ چاروں در مقفل ہو چکے کیا خبر تھی ایک دروازہ کھلا رہ جائے گا کرچیاں ہو جائیں گی آنکھیں بھی خوابوں کی طرح آئینوں میں نقش سا تصویر کا رہ جائے گا بات لب پر آ گئی تو کون روکے گا اسے اور تیرا ...

    مزید پڑھیے

    ایک میری جاں میں اور اک لہر صحراؤں میں تھی

    ایک میری جاں میں اور اک لہر صحراؤں میں تھی کچھ نکیلے سنگ تھے کچھ ریت دریاؤں میں تھی کیا ہوا وہ گرم دوپہروں میں یخ ہونا مرا کیا ہوئی وہ دھوپ سی لذت کہ جو چھاؤں میں تھی کیا خبر کیا جسم تھے کیوں موج صحرا ہو گئے کیا بتائیں کس بلا کی گونج دریاؤں میں تھی شہر والے کب کے محروم بصارت ہو ...

    مزید پڑھیے

    خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑا جانا تھا

    خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑ جانا تھا ہم سے اک روز ترا غم بھی بچھڑ جانا تھا کون سے کاج سنورتے ہیں ترے ہونے سے کون سا کام نہ ہونے سے بگڑ جانا تھا بیعت عشق نہ کی بیعت شاہی کے لیے قصر بسنا تھے سو مقتل کو اجڑ جانا تھا سنگ ریزوں کی کمی کب تھی سر راہ وصال دل کم ظرف کا دامن ہی سکڑ جانا ...

    مزید پڑھیے

    اک وہم کی صورت سر دیوار یقیں ہیں

    اک وہم کی صورت سر دیوار یقیں ہیں دیکھو تو ہیں موجود نہ دیکھو تو نہیں ہیں ہم سے کشش موجۂ رفتار نہ پوچھو ہم اہل محبت تو گرفتار زمیں ہیں اس راہ سے ہٹ کر گزر اے ناقۂ لیلیٰ اس گوشۂ صحرا میں ہم آرام گزیں ہیں چھوڑیں بھی تو کس طرح ہم اس شہر کو چھوڑیں اس نجد کے پابند ترے خاک نشیں ہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    شب بھلی تھی نہ دن برا تھا کوئی

    شب بھلی تھی نہ دن برا تھا کوئی جیسا جی کو ترے لگا تھا کوئی اشک تھے کرچیاں تھیں آنکھیں تھیں آئنہ سے امنڈ پڑا تھا کوئی ٹوٹ کر کس نے کس کو چاہا تھا کس کا ملبہ اٹھا رہا تھا کوئی لاکھ آنچل ہوا کے ہاتھ میں تھے سر برہنہ مگر کھڑا تھا کوئی اپنے ہی سر میں ڈالنے کے لیے خاک اپنی اڑا رہا تھا ...

    مزید پڑھیے

    ترا رنگ بصیرت ہو بہو مجھ سا نکل آیا

    ترا رنگ بصیرت ہو بہو مجھ سا نکل آیا تجھے میں کیا سمجھتا تھا مگر تو کیا نکل آیا ذرا سا کام پڑتے ہی مزاج اک خاک زادے کا قد و قامت میں گردوں سے بھی کچھ اونچا نکل آیا زر خوشبو کھنکتا رہ گیا دست گل تر میں دل سادہ خریدار دل سادہ نکل آیا عجب اک معجزہ اس دور میں دیکھا کہ پہلو سے ید بیضا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4