Najeeb Ahmad

نجیب احمد

نجیب احمد کے تمام مواد

31 غزل (Ghazal)

    ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا

    ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا لیکن کہا ہوا کا بھی پورا نہیں ہوا تم ایک گرد باد تھے چکرا کے رہ گئے ہم سے بھی پار ذات کا صحرا نہیں ہوا خوشبو کہیں تو پھول ہوا لے اڑی کہیں یوں منتشر کسی کا قبیلہ نہیں ہوا سو وسوسوں کی گرد برستی رہی مگر دل ایسا آئنہ تھا کہ میلا نہیں ہوا پتھر تھے ...

    مزید پڑھیے

    زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا

    زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا ہم کہ دریا ہیں سمندر کی غذا ہونا ہی تھا اور کب تک بے ثمر رکھتی خزاں پیڑوں کے ہاتھ رت بدل جانا تھی یہ جنگل ہرا ہونا ہی تھا روکنے سے کب ہوا کے نرم جھونکے رک سکے بند دروازوں کو اک دن نیم وا ہونا ہی تھا دھول کب تک جھونکے اک دوسرے کی آنکھ میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    یقیں نے مجھ کو اسیر‌ گماں نہ رہنے دیا

    یقیں نے مجھ کو اسیر‌ گماں نہ رہنے دیا کہ اس نے ربط کوئی درمیاں نہ رہنے دیا مری نظر ہی سمندر کی آخری حد تھی مری تھکن نے مجھے پرفشاں نہ رہنے دیا کسی نے کشتی اتاری تو تھی سمندر میں مگر ہوا نے کوئی بادباں نہ رہنے دیا کوئی تو برف بکف دشت کی طرف آیا کسی نے بحر میں پانی رواں نہ رہنے ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے

    ضرورت کچھ زیادہ ہو نہ جائے سمندر اور گہرا ہو نہ جائے یہ دھن یہ موج لے ڈوبے نہ مجھ کو بگولا غرق صحرا ہو نہ جائے ہوائیں سر برہنہ پھر رہی ہیں قبائے گل تماشا ہو نہ جائے ابھی کچھ تیر ترکش میں بھی ہوں گے پرانا زخم اچھا ہو نہ جائے قیامت کی گھڑی ہے آج سورج سوا نیزے سے اونچا ہو نہ ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ہمدم ترے ہم راز ہوا کرتے تھے

    تیرے ہمدم ترے ہم راز ہوا کرتے تھے ہم ترے ساتھ ترا ذکر کیا کرتے تھے ڈھونڈ لیتے تھے لکیروں میں محبت کی لکیر ان کہی بات پہ سو جھگڑے کیا کرتے تھے اک ترے لمس کی خوشبو کو پکڑنے کے لئے تتلیاں ہاتھ سے ہم چھوڑ دیا کرتے تھے وصل کی دھوپ بڑی سرد ہوا کرتی تھی ہم ترے ہجر کی چھاؤں میں جلا کرتے ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    خیال رکھنا

    میں جا چکوں تو خیال رکھنا رفیق میرے، زمین کی ان دراز پلکوں سے اشک بن کر جڑے ہوئے ہیں خیال رکھنا کہ سارے موسم بس ایک دکھ کے پیامبر ہیں جو میرا دکھ ہے یہ میرا دکھ ہے کہ میں نے اس دکھ کی پرورش ہیں لہو کا لقمہ، بدن کا ایندھن کیا فراہم یہ دکھ مرا ہے، مرا رہے گا کہ آسمانوں کی سمت میرے سوا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کچھ کام باقی ہیں

    ابھی ٹھہرو ابھی کچھ کام باقی ہیں ذرا یہ کام نمٹا لیں تو چلتے ہیں ابھی تو نا مکمل نظم کا اک آخری مصرعہ کتاب ہجر میں تحریر کرنا ہے خس و خاشاک غم اسلاف میں تقسیم ہو جائیں تو سر سے بوجھ اترے قرض کا جامہ پہن کر اک نئے رستے پہ جانا کب مناسب ہے ابھی ٹھہرو ابھی ہم کو جزیرے میں ہوا کے سبز ...

    مزید پڑھیے

    خواب گاہ

    غرض کی میلی دراز چادر لپیٹ کر وہ منافقت کے سیاہ بستر پہ سو رہی تھی مری برہنہ نگاہ میں رت جگوں کی سرخی جمی ہوئی ہے پہاڑ سی رات ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی

    مزید پڑھیے

    دیئے آنکھوں کی صورت بجھ چکے ہیں

    وصل کے لمحوں کی گنتی کرنے والے ہاتھ حدت سے تہی ہیں موج میں آئے ہوئے دریا میں کشتی کون ڈالے مانجھیوں کے گیت لہروں کی طرح ساحل کی بھیگی ریت پر بکھرے ہوئے ہیں اب کسی بڑھیا کی گٹھری کوئی اہل دل اٹھا کر بستیوں کا رخ نہیں کرتا کسی ہمسائے سے احوال دل معلوم کرنا کار بے اجرت ہوا ہے نفسی ...

    مزید پڑھیے