فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا
فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا اس سے پہلے لمس کا سورج مرے سر پر نہ تھا دل کے دروازے پہ دستک دے رہا تھا کون تھا اک ذرا سوچا کوئی چہرہ کوئی پیکر نہ تھا آئنہ کی ضد تھی بانٹے جائیں چہروں کے نقوش ورنہ میں بھی کانچ کی گڑیوں کا سوداگر نہ تھا زرد ٹھٹھری دھوپ میں پہنے ہوئے ...