مظفر ایرج کی غزل

    فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا

    فاصلوں کی برف پگھلے گی مجھے یہ ڈر نہ تھا اس سے پہلے لمس کا سورج مرے سر پر نہ تھا دل کے دروازے پہ دستک دے رہا تھا کون تھا اک ذرا سوچا کوئی چہرہ کوئی پیکر نہ تھا آئنہ کی ضد تھی بانٹے جائیں چہروں کے نقوش ورنہ میں بھی کانچ کی گڑیوں کا سوداگر نہ تھا زرد ٹھٹھری دھوپ میں پہنے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    یوں بلانے سے نیند کب آئی

    یوں بلانے سے نیند کب آئی جب بھی آئی ہے بے طلب آئی رو پڑے دل دیار کے باسی ان کے گھر میں بہار جب آئی میں کسی بزم میں اگر آیا ساتھ میرے تمہاری چھب آئی دل ہی دھڑکا نہ آنکھ ہی پھڑکی کیوں تری یاد بے سبب آئی چشم تر تو برس نہ سوچ ابھی بھاڑ دشت جنوں میں کب آئی یاد کا بھی عجیب عالم ہے جب ...

    مزید پڑھیے

    نمک نگاہوں میں ہونٹوں میں ذائقہ نہ رہا

    نمک نگاہوں میں ہونٹوں میں ذائقہ نہ رہا انہیں رجھانے کا اب ہم میں حوصلہ نہ رہا نہ تاک جھانک نہ ہی چلمنیں دریچوں پر جہاں بھی دیکھیے نظروں کا رابطہ نہ رہا پرو کے ہار رہی جس کی منتظر برسوں وہ لمحہ بھر بھی مرے سامنے کھڑا نہ رہا عجب زمانہ ہے بنتی ہیں جوڑیاں پل پل رہی پسند سوئمور کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2