نمک نگاہوں میں ہونٹوں میں ذائقہ نہ رہا

نمک نگاہوں میں ہونٹوں میں ذائقہ نہ رہا
انہیں رجھانے کا اب ہم میں حوصلہ نہ رہا


نہ تاک جھانک نہ ہی چلمنیں دریچوں پر
جہاں بھی دیکھیے نظروں کا رابطہ نہ رہا


پرو کے ہار رہی جس کی منتظر برسوں
وہ لمحہ بھر بھی مرے سامنے کھڑا نہ رہا


عجب زمانہ ہے بنتی ہیں جوڑیاں پل پل
رہی پسند سوئمور کا مرحلہ نہ رہا


کسی کے مرنے کا غم اب کسی کے دل میں نہیں
محبتوں کا کسی دل میں بھی صلہ نہ رہا


اور اس کے بعد ہی میں جیت کی کگار پہ تھا
اور اس کے بعد ہی ان سے مقابلہ نہ رہا


خدائے وقت بنا جب سے پہرے دار اپنا
خدا کا شکر تحفظ کا سلسلہ نہ رہا


انہیں یہ دکھ کہ الٹ دی ہے میں نے ہی بازی
مجھے یہ غم کہ مرے ہاتھ میں دیا نہ رہا


کہاں سے آئے ہیں ایرجؔ یہ بت تراش یہاں
کہ شہر دل کا بھی محفوظ آئینہ نہ رہا