یوں بلانے سے نیند کب آئی
یوں بلانے سے نیند کب آئی
جب بھی آئی ہے بے طلب آئی
رو پڑے دل دیار کے باسی
ان کے گھر میں بہار جب آئی
میں کسی بزم میں اگر آیا
ساتھ میرے تمہاری چھب آئی
دل ہی دھڑکا نہ آنکھ ہی پھڑکی
کیوں تری یاد بے سبب آئی
چشم تر تو برس نہ سوچ ابھی
بھاڑ دشت جنوں میں کب آئی
یاد کا بھی عجیب عالم ہے
جب نہ آنا اسے تھا جب آئی
ان سے ملنے کی جب بھی بات چھڑی
حس نگاہوں میں جاں بہ لب آئی
ہجر کی دھوپ ڈھلتے ڈھلتے ڈھلی
وصل کی شب گھڑی نہ شب آئی
خوش نصیبی کی رت بھی کیوں ایرجؔ
میں نے چاہا نہ تھا کہ تب آئی