جو ہونٹوں پہ مہر خموشی لگا دی
جو ہونٹوں پہ مہر خموشی لگا دی تو مل کر نگاہوں نے تالی بجا دی کسی کے لیے میں پریشاں نہیں ہوں رقیبوں نے جانے کہاں کی اڑا دی جنوں اپنی تقدیر سے کھیلتا ہے مٹائی بنا دی بنائی مٹا دی ابھی نور و ظلمت میں چلتی رہے گی نہ وہ اس کے عادی نہ میں اس کا عادی خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو یہی ...