Muzaffar Hanfi

مظفر حنفی

ممتاز جدید شاعروں میں معروف

One of the prominent modern poets.

مظفر حنفی کی غزل

    جو ہونٹوں پہ مہر خموشی لگا دی

    جو ہونٹوں پہ مہر خموشی لگا دی تو مل کر نگاہوں نے تالی بجا دی کسی کے لیے میں پریشاں نہیں ہوں رقیبوں نے جانے کہاں کی اڑا دی جنوں اپنی تقدیر سے کھیلتا ہے مٹائی بنا دی بنائی مٹا دی ابھی نور و ظلمت میں چلتی رہے گی نہ وہ اس کے عادی نہ میں اس کا عادی خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو یہی ...

    مزید پڑھیے

    تم نے جی بھر کے ستانے کی قسم کھائی ہے

    تم نے جی بھر کے ستانے کی قسم کھائی ہے میں نے آنسو نہ بہانے کی قسم کھائی ہے باغبانوں نے یہ احساس ہوا ہے مجھ کو آشیانوں کو جلانے کی قسم کھائی ہے انقلابات کے شعلے بھی کہیں بجھتے ہیں آپ نے آگ بجھانے کی قسم کھائی ہے ڈر یہی ہے کہ کہیں خود سے نہ دھوکا کھا جائے جس نے دھوکے میں نہ آنے کی ...

    مزید پڑھیے

    پہلے ہم اس کی محفل میں جانے سے کترائے تو

    پہلے ہم اس کی محفل میں جانے سے کترائے تو لیکن کیا کیجے جب دل کی شامت ہی آ جائے تو اس جھگڑے میں ہم سایوں کی دخل اندازی واجب ہے بنیادی موضوع یہی تھا جاگ پڑے ہمسائے تو غزلوں میں رنگینی لانے کی بابت پھر سوچوں گا پہلے یہ بتلا دو اس نے چھپ کر تیر چلائے تو خود ملنے کی خواہش کرنا البتہ ...

    مزید پڑھیے

    رہتا ہے ہر وقت قلق میں

    رہتا ہے ہر وقت قلق میں ٹھیک نہ ہوگا تیرے حق میں قائم ہے سرخی سے تعلق ان کے دامن اور شفق میں مجموعے پر نام ہے میرا ذکر ترا ہر ایک ورق میں یہ ہیں اونچے اڑنے والے پاؤں ہوا میں سر خندق میں بابو جی بھی پی لیتے ہیں مل جاتی ہیں غیبی رقمیں حق داروں کی چھٹی کر دو استغنا کے ایک سبق ...

    مزید پڑھیے

    لائق دید وہ نظارا تھا

    لائق دید وہ نظارا تھا لاکھ نیزے تھے سر ہمارا تھا ایک آندھی سی کیوں بدن میں ہے اس نے شاید ہمیں پکارا تھا شکریہ ریشمی دلاسے کا تیر تو آپ نے بھی مارا تھا بادباں سے الجھ گیا لنگر اور دو ہاتھ پر کنارا تھا صاحبو بات دسترس کی تھی ایک جگنو تھا اک ستارا تھا آسماں بوجھ ہی کچھ ایسا ...

    مزید پڑھیے

    آج تک آزما رہی ہے مجھے

    آج تک آزما رہی ہے مجھے کربلا پھر بلا رہی ہے مجھے خون للکارتا ہے بڑھ بڑھ کر صاف آواز آ رہی ہے مجھے خنجر شمر تو وسیلہ ہے خود شناسی مٹا رہی ہے مجھے ذرہ ذرہ مرے لیے کوفہ زندگی ورغلا رہی ہے مجھے آج بھی لو بلند ہے میری موت کب سے بجھا رہی ہے مجھے

    مزید پڑھیے

    یہ سچ ہے کوئی رہنما ٹھیک نئیں

    یہ سچ ہے کوئی رہنما ٹھیک نئیں مرے بھائی تو بھی چلا ٹھیک نئیں ادیبوں کو سچ بولنا چاہیے سیاست کی آب و ہوا ٹھیک نئیں نگاہوں سے میلا نہ ہو جائے وہ اسے دیر تک دیکھنا ٹھیک نئیں ہمیں تو وہی سمت مرغوب ہے بلا سے ادھر راستہ ٹھیک نئیں چلو دھوپ سے آشنائی کریں یہ دیوار کا آسرا ٹھیک ...

    مزید پڑھیے

    طوفان بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا

    طوفان بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا وہ پوچھ کے صحرا سے پتہ میرے گھر آیا آغاز تمنا ہو کہ انجام تمنا الزام بہر حال ہمارے ہی سر آیا اس میں تو کوئی دل کی خطا ہو نہیں سکتی جب آنکھ لگی آپ کا چہرہ نظر آیا بستی میں مری کج کلہی جرم ہوئی ہے دیکھوں گا اگر اب کوئی پتھر ادھر آیا آیا تری محفل ...

    مزید پڑھیے

    بصارتوں پہ بھنور انکشاف کرتا ہے

    بصارتوں پہ بھنور انکشاف کرتا ہے کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے عجیب بھول بھلیاں ہے جستجو خود کی ہر ایک نقش قدم انحراف کرتا ہے مزا تو جب ہے کہ ہم اس کو نا خدا کر لیں ہوا کا رخ جو ہمارے خلاف کرتا ہے جسے گناہ کی توفیق ہی نہ ہو تا عمر اسے خدا نہ زمانہ معاف کرتا ہے لہو کی مار سے بچئے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا

    کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا سب نے بوسہ دے کر سچ کا بھاری پتھر چھوڑ دیا ڈھیلا پڑتا تھا سولی کا پھندا اس کی گردن پر میرے قاتل کو منصف نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا دریا کے رخ بہنے والی مچھلی مردہ مچھلی ہے اس کشتی کی خیر نہیں ہے جس نے لنگر چھوڑ دیا شعلوں کی اس ہمدردی پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4