آج تک آزما رہی ہے مجھے
آج تک آزما رہی ہے مجھے
کربلا پھر بلا رہی ہے مجھے
خون للکارتا ہے بڑھ بڑھ کر
صاف آواز آ رہی ہے مجھے
خنجر شمر تو وسیلہ ہے
خود شناسی مٹا رہی ہے مجھے
ذرہ ذرہ مرے لیے کوفہ
زندگی ورغلا رہی ہے مجھے
آج بھی لو بلند ہے میری
موت کب سے بجھا رہی ہے مجھے