Muzaffar Hanfi

مظفر حنفی

ممتاز جدید شاعروں میں معروف

One of the prominent modern poets.

مظفر حنفی کی غزل

    اک مصرف اوقات شبینہ نکل آیا

    اک مصرف اوقات شبینہ نکل آیا ظلمت میں تری یاد کا زینہ نکل آیا ہر چند کہ محفل نے مری قدر بہت کی اکتا کے انگوٹھی سے نگینہ نکل آیا پھر کوہ کنی ڈھال رہی ہے نئے تیشے پھر فخر سے چٹان کا سینہ نکل آیا سچ مچ وہ تغافل سے کنارہ ہی نہ کر لے میں سوچنے بیٹھا تو پسینہ نکل آیا غوطہ جو لگایا ہے ...

    مزید پڑھیے

    شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں

    شاخوں پر ابہام کے پیکر لٹک رہے ہیں لفظوں کے جنگل میں معنی بھٹک رہے ہیں پاکیزہ اخلاق مسلط ہے جذبے پر خواہش کی آنکھوں میں کانٹے کھٹک رہے ہیں ملہاریں گاتے ہیں مینڈک تال کنارے آسمان پر بھورے بادل مٹک رہے ہیں مطلع پر یادوں کی پو سی پھوٹ رہی ہے من پر کالے سانپ اپنے پھن پٹک رہے ...

    مزید پڑھیے

    خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں

    خود مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ میں کیا ہوں اب تک تو خود اپنی ہی نگاہوں سے چھپا ہوں حالات کے نرغے میں کچھ اس طرح گھرا ہوں محسوس یہ ہوتا ہے تجھے بھول چکا ہوں سمجھا تھا کہ روداد نئے دور کی ہوگی آیا ہے ترا نام تو میں چونک اٹھا ہوں شاید کبھی بچپن میں کہیں ساتھ رہا ہے آئنے میں اک شکل ...

    مزید پڑھیے

    پیر مغاں کو قبلۂ حاجات کہہ گیا

    پیر مغاں کو قبلۂ حاجات کہہ گیا میں بھی ہنسی ہنسی میں بڑی بات کہہ گیا تاریک راستے کا مسافر نہیں ہے وہ جو تیرے گیسوؤں کو سیہ رات کہہ گیا قاصد نے اس کی بات بنائی نہ ہو کہیں کس بے تکلفی سے جوابات کہہ گیا پھولوں نے ہنس کے ٹال دیا وقت پر ہمیں کانٹا مگر بہار کے حالات کہہ گیا میں، ...

    مزید پڑھیے

    تنکوں کے ارمان لبیک لبیک

    تنکوں کے ارمان لبیک لبیک طوفان طوفان لبیک لبیک بے دست و پا میں بے دست و پا تو جنگل بیابان لبیک لبیک وحشت کی بستی کوتاہ دستی میرا گریبان لبیک لبیک آزاد دیدہ مردم گزیدہ آئینہ حیران لبیک لبیک تتلی شگوفے جگنو ستارے سب تیری پہچان لبیک لبیک اونچا ہوا سر نیزہ بہ نیزہ یاروں کا ...

    مزید پڑھیے

    اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

    اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ وہ دن ہوا ہوئے کہ بچھاتے تھے جان و دل اب ایک بار اور ہمیں مسکرا کے دیکھ پردہ پڑا ہوا ہے تبسم کے راز پر پھولوں سے اوس آنکھ سے آنسو گرا کے دیکھ یہ دوپہر بھی آئی ہے پرچھائیوں کے ساتھ ویسے نظر نہ آئیں تو مشعل ...

    مزید پڑھیے

    اس نے ہم کو جھیل ترائی اور پہاڑ دئے

    اس نے ہم کو جھیل ترائی اور پہاڑ دئے ہم نے ان سب کی گردن میں پنجے گاڑ دئے زنجیروں میں جکڑی اس منہ زور ہوا نے پھر توڑ دئے کھڑکی دروازے پر دے پھاڑ دئے شبنم شبنم موتی بو کر آشا بیٹھی تھی لشکر آیا کھیت جلائے پیڑ اکھاڑ دئے ریت بھری نہروں کو دیکھو بہنا بھول گئیں نفرت کی آندھی نے کتنے ...

    مزید پڑھیے

    دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں

    دیواروں پر گیلی ریکھائیں روتی ہیں تینوں پر گھنگھرو کی بوندیں ناچ رہی ہیں پیروں میں مکڑی نے جالا تان رکھا ہے پر پھیلا کر چڑیاں کاندھے پر بیٹھی ہیں ڈول رہے ہیں آنکھوں میں پتھر کے سائے شریانوں میں بہتی ندیاں سوکھ چکی ہیں در پر ویرانی کا پردہ جھول رہا ہے کھونٹی سے تنہائی کی ...

    مزید پڑھیے

    کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا

    کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا دل شہر تمنا ترے بسنے کے لیے تھا صحرا میں بگولوں کی طرح ناچ رہا ہوں فطرت سے میں بادل تھا برسنے کے لیے تھا روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا کچھ رات کا احساں ہے نہ سورج کا کرم ہے غنچہ تو بہرحال بکسنے کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    بچے لائے انوکھی تتلی اور نرالے پھول

    بچے لائے انوکھی تتلی اور نرالے پھول خوشبو دینے والی تتلی اڑنے والے پھول جس دن گلشن میں نفرت کی آندھی چلتی ہے شاخوں پر اگنے لگتے ہیں کالے کالے پھول اس کے پیروں میں کانٹے تھے چھالے ہاتھوں میں اوپر سے پریوں نے اس بچے پر ڈالے پھول ہمرا اور ثمرہ نے سالگرہ پر ایمن کی خوب چھڑائی آتش ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4