Mushtaq Ali Shahid

مشتاق علی شاھد

  • 1942

مشتاق علی شاھد کی نظم

    آئینے کے سامنے

    جانے کب سے آئینے کے سامنے بیٹھا ہوا محو حیرت ہوں کہ میرے چہرے پر اجنبیت کی یہ کیسی دھول آ کر جم گئی ہے

    مزید پڑھیے

    شاعر

    اس نظم میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہ تھی اس نظم کی تخلیق پر وہ بہت خوش تھا پھر بھی اشاعت کے لئے روانہ کرنے سے قبل اس نے نظم کے آخری مصرعے بدل ڈالے

    مزید پڑھیے

    احساس جرم

    وہ پہلا شخص جس نے سوچ کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلی کنکری پھینکی وہ پہلا فلسفی جس نے دریچے ذہن کے کھولے وہ شاعر جس نے پہلے شعر کی تخلیق کی ہوگی وہ سب کے سب اگر اس دور میں پھر جنم لے لیں تو ان کو ارتکاب جرم کا احساس پھر سے مار ڈالے گا

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2