Mushtaq Ali Shahid

مشتاق علی شاھد

  • 1942

مشتاق علی شاھد کی نظم

    مجھ سے پوچھو

    میں ہر دور میں جنما باتیں ہر یگ کی دہرا سکتا ہوں مجھ سے پوچھو میں سقراط کے ہونٹوں پر تھا زہر کا پیالہ میں نے پیا تھا اور سقراط مرا کب تھا رام نے کب بن باس لیا تھا وہ تو میں تھا چودہ سال تو میں نے کاٹے جنگل جنگل صحرا صحرا میں بھٹکا تھا اور لنکا تک تم کو تو معلوم نہیں ہے میں بھی نوح ...

    مزید پڑھیے

    قلم

    اس کی گردن میری انگلیوں میں دبی تھی زبان باہر نکل آئی تھی پھر وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی اس نے وہی اگلا جو میں چاہتا تھا

    مزید پڑھیے

    لیڈر

    ہزاروں ہاتھوں کو اپنی جانب بلند پا کر وہ سمجھا سب اسے سلام کر رہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں وہ خوش ہوا اور آگے بڑھ گیا ان بے شمار آنکھوں میں جھانکے بغیر جن میں گھور ترسکار بھرا تھا

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ اکائیاں

    ریزہ ریزہ اکائیاں وہ ایک شے جس سے اپنا رشتہ جڑا ہوا ہے وہ ایک شے جو ہماری اس کی ہر ایک کی ہڈیوں میں پنہاں لہو لہو میں بسی ہوئی ہے وہ شے ازل سے جو اپنی مجلس میں جی سکی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ مر رہی ہے وہ ایک شے بے پناہ سی ہے وہ تنگ و تاریک سی گپھائیں ابھی ابھی ایک لمحہ میں جو سونی سونی سی ہو ...

    مزید پڑھیے

    نہ میرا نام میرا ہے

    نہ میرا نام میرا ہے نہ اس کا روپ اس کا ہے نہ میری شخصیت میری نہ اس کا غم فقط اس کا یہاں جو ہے فقط سایہ ہے نقطہ ہے کوئی پھیلا ہوا سایہ کوئی سمٹا ہوا نقطہ نقابوں سے ملو لوگو نقابوں ہی کو جتنے نام دے سکتے ہو دے ڈالو نقابیں راستے منزل پھیلتے سائے دیواریں نقابیں نام چہرے شخصیت احساس کی ...

    مزید پڑھیے

    مٹی موسم اور رنگ

    تم جو مٹی موسم اور رنگ پہچانتے ہو اپنے تلووں کو کھرچ کر دیکھو تو ان گنت صدیوں پرانی مٹی کا لمس پا کر خوش ہو گے تم جو مٹی ہو اور ذرا غور سے دیکھو تو تمہارے جسم کی بیرونی سطحوں پر بے شمار موسموں کے نشاں تمہیں صاف دکھائی دیں گے تم جو موسم تو نہیں ہو لیکن موسموں ہی سے جنمے ہو اور موسموں ...

    مزید پڑھیے

    انتظار کے بعد

    انگلیوں میں دبی ہوئی سگریٹ کا ایک اور کش لینے سے پہلے میں نے بالکنی میں جھانکا وہ اب بھی نہیں آیا تھا کمرے میں چند ساعت کے لئے بے حس و حرکت کھڑا رہنا عجیب سا لگا اور تب میں نے سلگتی ہوئی سگریٹ کو جس کے ابھی کئی اور کش لئے جا سکتے تھے چھوٹی سی گول میز پر بری طرح سے مسل ڈالا دایاں ...

    مزید پڑھیے

    میں

    کینوس پر مجھ کو چپکانے کے بعد میرا خاکہ جب ادھورا سا لگا اک نئی ریکھا میرے بائیں طرف کھینچی گئی میں مکمل ہو گیا اور پھر کینوس پر چھا گیا

    مزید پڑھیے

    تردید

    لفظ و معنی ہمیشہ سے میرے لئے اجنبی ہی رہے گفتگو میرے سر ایک الزام ہے میں چیخا ہوں رویا ہوں سرگوشیاں کی ہیں لیکن کسی سے کوئی گفتگو آج تک میں نے کی ہی نہیں

    مزید پڑھیے

    لہو میں اترتا ہوا موسم

    ہواؤں کی برفاب سی انگلیاں کہہ رہی ہیں کہیں پاس ہی موسلا دھار بارش ہوئی ہے پہاڑوں کی دامن میں شاید گئی رات کو برف گرتی رہی ہے لہو میں اترتا ہوا دوسرا ایک لمحہ کہیں کچھ نہیں کچھ بھی بدلا نہیں ہے نہ موسم نہ گرمی ہوا کی فقط میرے احساس کی یخ بستگی چپکے چپکے میرے خون کو منجمد کر رہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2