Mushtaq Ali Shahid

مشتاق علی شاھد

  • 1942

مشتاق علی شاھد کے تمام مواد

13 نظم (Nazm)

    مجھ سے پوچھو

    میں ہر دور میں جنما باتیں ہر یگ کی دہرا سکتا ہوں مجھ سے پوچھو میں سقراط کے ہونٹوں پر تھا زہر کا پیالہ میں نے پیا تھا اور سقراط مرا کب تھا رام نے کب بن باس لیا تھا وہ تو میں تھا چودہ سال تو میں نے کاٹے جنگل جنگل صحرا صحرا میں بھٹکا تھا اور لنکا تک تم کو تو معلوم نہیں ہے میں بھی نوح ...

    مزید پڑھیے

    قلم

    اس کی گردن میری انگلیوں میں دبی تھی زبان باہر نکل آئی تھی پھر وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی اس نے وہی اگلا جو میں چاہتا تھا

    مزید پڑھیے

    لیڈر

    ہزاروں ہاتھوں کو اپنی جانب بلند پا کر وہ سمجھا سب اسے سلام کر رہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں وہ خوش ہوا اور آگے بڑھ گیا ان بے شمار آنکھوں میں جھانکے بغیر جن میں گھور ترسکار بھرا تھا

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ اکائیاں

    ریزہ ریزہ اکائیاں وہ ایک شے جس سے اپنا رشتہ جڑا ہوا ہے وہ ایک شے جو ہماری اس کی ہر ایک کی ہڈیوں میں پنہاں لہو لہو میں بسی ہوئی ہے وہ شے ازل سے جو اپنی مجلس میں جی سکی ہے نہ ٹوٹتی ہے نہ مر رہی ہے وہ ایک شے بے پناہ سی ہے وہ تنگ و تاریک سی گپھائیں ابھی ابھی ایک لمحہ میں جو سونی سونی سی ہو ...

    مزید پڑھیے

    نہ میرا نام میرا ہے

    نہ میرا نام میرا ہے نہ اس کا روپ اس کا ہے نہ میری شخصیت میری نہ اس کا غم فقط اس کا یہاں جو ہے فقط سایہ ہے نقطہ ہے کوئی پھیلا ہوا سایہ کوئی سمٹا ہوا نقطہ نقابوں سے ملو لوگو نقابوں ہی کو جتنے نام دے سکتے ہو دے ڈالو نقابیں راستے منزل پھیلتے سائے دیواریں نقابیں نام چہرے شخصیت احساس کی ...

    مزید پڑھیے

تمام