Murtaza Ali Shad

مرتضی علی شاد

مرتضی علی شاد کی غزل

    گمرہی میں نئے رابطے مل گئے

    گمرہی میں نئے رابطے مل گئے راہ بھٹکے ہوئے قافلے مل گئے میری تنہا روی کا بھرم مٹ گیا ہم سفر راستوں میں نئے مل گئے جانے والے اسی موڑ پر ایک دن پھر ملیں گے اگر راستے مل گئے میں ترے اور نزدیک آ جاؤں گا قربتوں میں اگر فاصلے مل گئے تیری تصویر البم سے گم تھی مگر خط کئی تیرے لکھے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    دشت احساس میں آواز درا ملتی ہے

    دشت احساس میں آواز درا ملتی ہے مجھ کو ہر سانس میں تمہید نوا ملتی ہے رات سو جائے تو بیدار ہوا ملتی ہے گھر کی دہلیز پہ قدموں کی صدا ملتی ہے تجھ کو شاید نہیں معلوم حریف جادہ یہ سڑک دشت بلا خیز سے جا ملتی ہے ہم جسے بیچنا چاہیں وہ خریدیں کیوں کر زندگی ہم سے تو بازار میں کیا ملتی ...

    مزید پڑھیے

    یقیں کی حد میں ہوں یا ورطہ گمان میں ہوں

    یقیں کی حد میں ہوں یا ورطہ گمان میں ہوں مجھے خبر ہے کہ میں ہوں پر امتحان میں ہوں وہ پر سمیٹ کے خوش ہے کہ پا گیا مجھ کو میں زخم کھا کے ہوں نازاں کہ آسمان میں ہوں کوئی تو تھا کہ جو پتھر بنا گیا چھو کر مجھے بتاؤ میں کس شخص کی امان میں ہوں ہوا کی آنکھ سے گزروں تو معرکہ ٹھہرے مثال تیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2