دشت احساس میں آواز درا ملتی ہے
دشت احساس میں آواز درا ملتی ہے
مجھ کو ہر سانس میں تمہید نوا ملتی ہے
رات سو جائے تو بیدار ہوا ملتی ہے
گھر کی دہلیز پہ قدموں کی صدا ملتی ہے
تجھ کو شاید نہیں معلوم حریف جادہ
یہ سڑک دشت بلا خیز سے جا ملتی ہے
ہم جسے بیچنا چاہیں وہ خریدیں کیوں کر
زندگی ہم سے تو بازار میں کیا ملتی ہے
چاند پانے کو مصر ہو کوئی روتا بچہ
آئینہ ہاتھ میں دے دو تو جزا ملتی ہے
گھر کے شیشوں پہ ترا نام لکھا ہے جب سے
دھوپ گلدان کے پھولوں سے خفا ملتی ہے
تجھ کو سوچیں بھی نہیں اور کہانی کی طرح
بات کیوں کوچہ و بازار سے جا ملتی ہے