منیر انور کی غزل

    غم کو خود پر سوار مت کرنا

    غم کو خود پر سوار مت کرنا زخم کو اشتہار مت کرنا ایک حد میں رہو تو اچھا ہے حد کی دیوار پار مت کرنا اپنی پرواز بھول جاؤ گے غیر پر انحصار مت کرنا سر اٹھانا محال ہو جائے خود کو یوں زیر بار مت کرنا وقت کب انتظار کرتا ہے وقت کا انتظار مت کرنا بات کرنا تو سامنے کرنا پیٹھ پیچھے سے وار ...

    مزید پڑھیے

    ترا مزاج تکبر کا شاخسانہ تھا

    ترا مزاج تکبر کا شاخسانہ تھا تعلقات کا منظر بدل ہی جانا تھا گئے تھے ہم بھی فقط رسم ہی نبھانے کو اور اس کا طرز عمل بھی مخاصمانہ تھا کسی کے اونچے در و بام محترم تھے مگر ہمیں ہوا کے لیے راستہ بنانا تھا یہ خاک بغض و عداوت سے پاک رکھنی تھی زمین دل پہ شجر پیار کا اگانا تھا میں جانتا ...

    مزید پڑھیے

    ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر

    ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر ہمارے حصے میں تنہا سفر رہا آخر اگر یہ طے تھا کہ ہر بات سے مکرنا ہے تو ساتھ دینے کا وعدہ ہی کیوں کیا آخر اسے خیال تھا کتنا جہان والوں کا اسی خیال میں جاں سے گزر گیا آخر تضاد فکر کا الزام کچھ درست نہیں کہا تھا میں نے جو اول وہی کہا آخر وہ میرے درد مرے ...

    مزید پڑھیے

    دائرے سے نکال دے کوئی

    دائرے سے نکال دے کوئی ہم کو رستے پہ ڈال دے کوئی سانس رکنے لگی ہے سینے میں یہ کڑا وقت ٹال دے کوئی یوں کیا ہے سلام اس نے مجھے جیسے پتھر اچھال دے کوئی اس کی حسرت میں جو گزار دئے وہ مرے ماہ و سال دے کوئی بات کرنا محال لگتا ہے میرے مولا کمال دے کوئی کاش میری خطاؤں کو انورؔ اک تبسم ...

    مزید پڑھیے

    غزل کہوں کہ تجھے حاصل غزل لکھوں

    غزل کہوں کہ تجھے حاصل غزل لکھوں میں لفظ لکھوں مگر پھر بدل بدل لکھوں تمہارے ساتھ جو لمحے نصیب میں آئے انہیں میں عمر کہوں اور ایک پل لکھوں ابد قرار دوں چاہت کی ہر نشانی کو میں تیرے پیار کو سرمایۂ ازل لکھوں تری نظر کے بدلتے ہوئے اشاروں کو میں تیرا آج کہوں اور اپنا کل ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑی سی مٹی کی اور دو بوند پانی کی کتاب

    تھوڑی سی مٹی کی اور دو بوند پانی کی کتاب ہو اگر بس میں تو لکھیں زندگانی کی کتاب رت جگے تنہائیاں پانے کا کھو دینے کا ذکر لیجئے پڑھ لیجئے میری جوانی کی کتاب کہہ رہی ہے شہر کی بربادیوں کی داستاں ادھ جلے کچھ کاغذوں میں اک کہانی کی کتاب زندگی بھر کفر کے فتووں کی زد میں تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی ملنے کے زمانے آئے

    جب بھی ملنے کے زمانے آئے بد گمانی میں سلگتے آئے کس کو الزام تباہی دیں ہم کئی پتھر کئی شعلے آئے بھول بیٹھے ہیں اڑانیں اپنی ہم ترے ہاتھ میں ایسے آئے ان کے انداز میں اغماض بڑھا میری پلکوں پہ ستارے آئے کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا اس نے جب پوچھا کہ کیسے آئے

    مزید پڑھیے

    تجھے دل سے اتارا ہی نہیں تھا

    تجھے دل سے اتارا ہی نہیں تھا کہ تیرے بن گزارہ ہی نہیں تھا ہمیں بھی زندگی مشکل لگی تھی یہ عالم بس تمہارا ہی نہیں تھا پلٹ کے آ بھی سکتا تھا وہ لیکن اسے ہم نے پکارا ہی نہیں تھا ترے لہجے میں تبدیلی چہ معنی تری جانب اشارہ ہی نہیں تھا اسے الزام دھرنا تھا کسی پر کہ کوئی اور چارہ ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2