ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر

ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر
ہمارے حصے میں تنہا سفر رہا آخر


اگر یہ طے تھا کہ ہر بات سے مکرنا ہے
تو ساتھ دینے کا وعدہ ہی کیوں کیا آخر


اسے خیال تھا کتنا جہان والوں کا
اسی خیال میں جاں سے گزر گیا آخر


تضاد فکر کا الزام کچھ درست نہیں
کہا تھا میں نے جو اول وہی کہا آخر


وہ میرے درد مرے غم کو بانٹنے والا
اک اور کرب مجھے دان کر گیا آخر


تمہیں یقین تھا ہم دوستی نبھا لیں گے
ہمیں گمان تھا جس کا وہی ہوا آخر


فراز دار سے پہلے کا وقت مشکل تھا
کسی کی یاد کے سائے میں کٹ گیا آخر


جب اختیار تھا تم فیصلہ سنا دیتے
تمام عمر تذبذب میں کیوں رکھا آخر


میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا
وہ میری کھوج میں نکلا بکھر گیا آخر


میں اعتبار کی دنیا سے کٹ گیا انورؔ
کسی کے ساتھ میں اتنا بھی کیوں چلا آخر