جب بھی ملنے کے زمانے آئے

جب بھی ملنے کے زمانے آئے
بد گمانی میں سلگتے آئے


کس کو الزام تباہی دیں ہم
کئی پتھر کئی شعلے آئے


بھول بیٹھے ہیں اڑانیں اپنی
ہم ترے ہاتھ میں ایسے آئے


ان کے انداز میں اغماض بڑھا
میری پلکوں پہ ستارے آئے


کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا
اس نے جب پوچھا کہ کیسے آئے