دائرے سے نکال دے کوئی
دائرے سے نکال دے کوئی
ہم کو رستے پہ ڈال دے کوئی
سانس رکنے لگی ہے سینے میں
یہ کڑا وقت ٹال دے کوئی
یوں کیا ہے سلام اس نے مجھے
جیسے پتھر اچھال دے کوئی
اس کی حسرت میں جو گزار دئے
وہ مرے ماہ و سال دے کوئی
بات کرنا محال لگتا ہے
میرے مولا کمال دے کوئی
کاش میری خطاؤں کو انورؔ
اک تبسم سے ٹال دے کوئی