یوں تو کیا کیا لوگ چھپے تھے دروازوں کے پیچھے

یوں تو کیا کیا لوگ چھپے تھے دروازوں کے پیچھے
میں ہی بس اڑتا رہتا تھا آوازوں کے پیچھے


خون کا اک قطرہ ورنہ پھر موت کا نشہ ہوگا
پر ایسی شے کب ہوتی ہے پروازوں کے پیچھے


وہ تو لوگ بنا دیتے ہیں پر اسرار فضا کو
اکثر کوئی راز نہیں ہوتا رازوں کے پیچھے


موسیقار کے بس میں کب ہے لے کو لو میں ڈھالے
ایک ان دیکھا ہات بھی ہوتا ہے سازوں کے پیچھے


پھر تو اپنے خون میں تیر کے پار اترنا ہوگا
تلواروں کی فصل ہو جب تیر اندازوں کے پیچھے


تمغہ پنشن بیوہ بچے مایوسی تنہائی
ایک کہانی رہ جاتی ہے جاں بازوں کے پیچھے


اب تو ہر چوکھٹ پر ماتھا ٹیک رہے ہو سیفیؔ
اور اگر دیواریں نکلیں دروازوں کے پیچھے