اتنے پر مغز ہیں دلائل کیا

اتنے پر مغز ہیں دلائل کیا
دل کو کر لو گے اپنے قائل کیا


پھر وہی سر ہے اور وہی تیشہ
عشق کیا عشق کے مسائل کیا


روشنی روشنی پکارتے ہو
روشنی کے نہیں مسائل کیا


روز میدان جنگ بنتا ہوں
مجھ میں آباد ہیں قبائل کیا


کس قدر عرضیاں گزاری ہیں
کبھی دیکھی ہے میری فائل کیا


ہاتھ پھیلانا کوئی کم تو نہیں
پیٹ دکھلائے تم کو سائل کیا


بیٹھے اب کرچیاں سمیٹتے ہو
اپنے رستے میں خود تھے حائل کیا


رات بھر جاگتے رہے ہیں درخت
کوئی پنچھی ہوا ہے گھائل کیا


بات بے بات ہنس رہے ہو منیرؔ
یوں اثر غم کا ہوگا زائل کیا