جائز ہے اس کا قتل ہمارے حساب سے
جائز ہے اس کا قتل ہمارے حساب سے
جس نے محبتوں کو نکالا نصاب سے
تنقید کر رہے ہیں کتاب حیات پر
آگے نہ بڑھ سکے جو کبھی انتساب سے
میں صاحب خبر بھی نظر بھی جنوں بھی تھا
جب تک رہا تھا میرا تعلق کتاب سے
اس وقت ایک سجدہ بڑے کام آ گیا
میں جب گزر رہا تھا انا کے عذاب سے
اک لمحے کا فراق ہوائیں نہ سہہ سکیں
دریا کہ شرمسار رہے گا حباب سے
مجھ سے بڑے بڑے تھے گنہ گار اس جگہ
بے کار ڈر رہا تھا میں یوم حساب سے
کانٹوں کے خوف سے بھی لرزتے ہو تم منیرؔ
اور گھر بھی چاہتے ہو سجانا گلاب سے